Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

Woman empowerment:A dark fold



نسوانی با اختیاری

ایک تاریک پہلو
یہ کوئی کہنے کی بات نہیں کہ پچھلی دو تین صدیوں میں انسانی معاشرہ کروٹوں پر کروٹیں لے رہا ہے ، اخلاقی معیارات و اقدار، رسم و رواج ، رہن سہن اور تہذیب و ثقافت نے اتنی بر ق رفتاری کے ساتھ چولا بدلا ہے کہ علم بشریات میں تھوڑی بہت بھی سدھ بدھ رکھنے والے حیران نظرآتے ہیں۔
    پچھلے زمانے کی بہت سی برائیاں قدرکی نگاہ سے دیکھی جانے لگیں ہیں،اور بالکل اسی طرح پرانے وقت کی اچھائیاں گری نظر سے دیکھی جانے لگیں ہیں، لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ یہ دونوں باتیں مکمل طور سے درست نہیں ۔ایسا ہر گز نہیں کہ پہلے کے لوگ عقل سے کورے تھے ،اور آج کے لوگ عقل کے شہنشاہ۔ اور یہ بھی نہیں تسلیم کیاجاسکتا کہ آج کے لوگ عقل سے پیدل ہیں اور پرانے لوگ خردکے دھنی تھے ۔سچی اور اچھی بات تویہ ہے کہ برائی اور نیکی دونوں ہر سماج کاجزء لاینفک رہی ہیں اوررہیں گی، کیونکہ ''تعرف الاشیاء باضدادہا'' چیزیں اپنی ضدوں سے ہی واضح ہوتی ہیں۔
    جدید یت کے اس دور میں جہاں بہت سے حقائق بے غبار ہوکر سامنے آئیں ہیں،وہیں بہت سے حقائق کو دبیز چادروں میں دبادیا گیا ہے، اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ سب کے سب برابر ہیں اورہرلحاظ سے۔ حالانکہ یہ بات نہ توکبھی سماجی حقیقت رہی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔
    جس چیز کو سب سے زیادہ بڑا، اور اہم مسئلہ بناکر پیش کیاجارہاہے وہ ہے ''جنسی مساوات'' بلکہ اگر یو ں کہا جائے توبے جانہ ہوگاکہ یہ ایسامسئلہ ہے جس بات پر دنیاکے بڑے بڑے ادیبوں ، شاعروں اور مفکروں کے علاوہ ان لوگوں نے بھی رائے زنی کی ہے جن کو ''جنسی مساوات'' کا معنی بھی نہیں معلوم ۔
     جدیدیت کی ابتداء کے بعدسے تو اس مسئلہ نے باقاعدہ تحریک کا روپ دھار لیاہے۔ عالمی پیمانے کی تنظمیں اس تحریک کو پروان چڑھا نے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے لگیں،چغادری قسم کے ادباء ،تحریر وتقریر کی متعدبہ توانائی اس پر صرف کرنے لگے، مگر''جنسی مساوات ''پر سوالیہ نشان آج بھی من وعن باقی ہے ۔
    اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثال پیش کرنا مناسب ہوگا،جہاں پر عورتوں کو مردوں کے شانہ بہ شانہ تسلیم کیاجاتاہے، اور یہ بھی مانا جاتاہے کہ ہر وہ کام جو ایک مرد کر سکتاہے عورت اس میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں۔اس خبط میں وہ اس طرح پڑے کہ انسانی قدروں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، جس کام کے لیے انسانوں نے درودیوار بنایا تھا آج وہ کام برسرعام اور بھرے بازار وں میں ہونے لگا ہے۔ عریانیت، فحاشیت اور اباحیت پسندی کی گرم بازاری کچھ اس طرح ہوئی کہ بارہ سال کی لڑکی اپنی ماں
سے کھل کر اپنے جنسی تعلقات پر گفتگو کرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ثانوی تعلیم مکمل کرتے کرتے تقریباً ہر ایک جنسی تجربہ ضرور کرلیتاہے۔ لیکن کیا اس سماج میں جنسی مساوات آگئی ہے؟ اگر جنسی مساوات کا مفہوم اتنا ہی ہو کہ انسان اور جانور کے درمیان پایا جانے والا فرق مٹادیاجاے تو یقینا جنسی مساوات کاحصول ہوچکاہے،لیکن اس بات پر وہ بھی راضی ہونے کوتیار نہیں ہوگا جو دن و رات اسی موضوع پر بقراطی جھاڑتاہو۔
    آج تک کوئی عورت شیکسپیر نہیں بن پائی ،جارج برناڈشا جیسی قوت فکریہ پیدا نہیں کر پائی ،ڈارون اور نیوٹن کے مرتبہ تک نہیں پہونچ پائی، سقراط و بقراط جیسا فلسفہ نہیں بگھاڑ پائی، تو مساوات کہاں؟
    اندر کی بات بتاؤں تو مغربی ممالک میں بھی بالکل ہندوستان کی طرح عورت کی کمائی کی حیثیت ثانوی ہے،خواہ اس کی تنخواہ مرد سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو، گھر صرف اور صرف مردوں کی کمائی سے چلتاہے، اگر اعتبار نہ ہوتو کیاپریشانی ہے؟یورپ کاایک سفرکرلیجئے حقیقت واضح ہوجائے گی۔
    ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس نہج پر بہت کچھ ہواہے،اورکچھ باتیں ہیں بھی قابل ستائش ۔نسوانی بااختیاری(
women empowerment)کے لیے میڈیااورقانون دونوں کاسہارا لیاگیا،انڈین پینل کوڈ کادفعہ 49$Aتوبالخصوص عورتوں پر ہورہے ظلم وزیادتی پر قدغن لگانے کے لیے ہی ہے۔اس دفعہ کے مطابق بیوی پر اس کے شوہر یااس کے رشتہ داروں کے ذریعہ ظلم وزیادتی پر تین سال کی سزاہوگی،اوراُنہیں جرمانہ بھی اداکرناپڑسکتاہے۔لیکن کیاعورتوں پر ہورہی زیادتی میں کمی آئی؟صبح سویرے کوئی اخباراُلٹ لیجئے تویہ حقیقت بالکل آشکاراہوجائےگی کہ ا س میں تھوڑی بھی کمی نہیں آئی، بلکہ جنسی استحصال کے واقعات اس قدرکثیر الوقوع ہیں، کہ بعض اخبارات کو اس کے لیے ایک پوراکالم مخصوص کرنادیناپڑا۔ہاں !اس قانون سے اتناہواکہ مردوں پر زیادتی بڑھنے لگی ،اوررپوٹوں کے مطابق جیل کی آدھی سے زیادہ آبادی اسی دفعہ کے تحت آنے والے ملزمین کی ہوتی ہے۔
    ابھی چند مہینوں پہلے ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک 23/سالہ طالبہ چند درندہ صفت لوگوں کے جنسی بھوک کاشکارہوئی تھی،واقعہ بہت شرمناک تھامتأثرہ جانبرنہ ہوسکی ،اورمرگئی ،معاملہ فاسٹ ٹریک عدالت میں ہے،انہیں سخت سے سخت سزاملنی چاہیے، ہم اس کی تائیدکرتے ہیں تاکہ دوبارہ ہمیں عالمی برادری میں شرمسارنہ ہوناپڑے۔امریکہ نے اسے '' بین الاقوامی ہمتی عورت'' کا اعزازدیاہے۔ ماناکہ اس کے ساتھ بہت ہی زیادتی ہوئی، یہ بھی تسلیم کہ اس واقعہ سے وقتی طورپر جنسی استحصال کے خلاف بیداری آئی، لیکن کیااس طرح کے اعزاز دینے سے یہ بُرائیاں ختم ہوجائیںگی؟کیادوبارہ اس جیساواقعہ نہیں ہوگا؟ہمیں تویہ اپنی تہذیب کی کھلی ہوئی تضحیک لگتی ہے،ہماری تہذیب قابل شرم چیزوں کو پردے میں رکھنے کی حامی ہے ،نہ کہ یادگار بنانے کی۔اگرہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پھرنہ ہوں توان کے اسباب وعوامل کاسدباب کرناچاہوگا۔اوریہ توسب جانتے ہیں کہ اس کے اسباب وعوامل کیاہیں؟
     میرے سامنے٦/مارچ ٢٠١٣؁ء کامشہورانگریزی اخبار[
hindustan times [ ہے ،جسکے پہلے ہی صفحہ پرایک خبرہے جس کی سرخی یہ ہےUS honour brave heart:
''ریاستہائے متحدہ امریکانے بہادردل اعزازدیا''
واضح رہے کہ یہ خبر اسی طالبہ کے بارے میں ہے جو دہلی میں اجتماعی عصمت دری کاشکار ہوئی تھی،لیکن اسی اخبار میں اسی خبر کے بالکل بغل میں یہ خبرہے:
class 9th girl gives birth inside school
''درجہ نوکی طالبہ نے اسکول کے اندربچے کو جنم دیا''
    بھلابتایئے توکیانسوانی بااختیاری اس کانام ہے؟اگرگراں نہ گزرے توعرض کردوں کہ ہرچیزاپنے مقام پر ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔عورت کاکیامقام ہے؟مذہب اسلام نے اسے خوب اچھی طرح سے بیان کردیاہے ...........اسلام نے ہی عورت کواس کاصحیح مقام عطاکیاہے........اور ساتھ ہی اس کی حفاظت کا ساما ن بھی مہیا کردیا ہے،اور وہ ہے اس کاباپردہ ہونااورنامحرموں سے خلط ملط نہ کرنا.......افسوس ہوتاہے ان نام نہادمفکرین پر جو اسلامی پردہ پرانگشت نمائی کرتے ہیں اورپھرعصمت دری جیسے واقعات پر پھوٹ پھوٹ کر رونے کی حد تک واویلامچاتے ہیں،کیاان کے پاس عقل نہیں؟


شائع شدہ ماہنامہ فیضان رضا مارچ ۲۰۱۳

Post a Comment

0 Comments