با صلاحیت علماء کو ضائع کرنے والے عناصر بہت ہیں
1- علماء کرام کبھی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے، اور کبھی نا تجربہ کاری کی وجہ سے، اور بسا اوقات اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے نا آشنائی کی وجہ سے خود کو ضائع کردیتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ بے جا تواضع اور کبھی بے جا تواضع میں پوشیدہ پست ہمتی بھی با صلاحیت افراد کو بہت پیچھے ڈھکیل دیتی ہے.
2 - اب ہمارے گرد وپیش کے ماحول نے اور علمی، فکری اور مذہبی مرعوبیت نے یہ مفروضہ قائم کرلیا ہے کہ جو قابل اور با صلاحیت علماء گزر گئے کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا، ان سے بہتر بلکہ ان کے ہم پلہ ہونے کا تصور تو بہت بڑی بات ہے، اسی لیے کوئی با صلاحیت عالم کچھ سوچتا بھی ہے تو زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرتا کہ لوگ کہیں گے یہ منھ اور مسور کی دال، ارے پہلے غلام فلاں تو بن، بعد میں آگے کا خواب دیکھنا.
3- با صلاحیت علماء کو ضائع کرنے میں والدین اور اہل خانہ کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے، کیونکہ یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ محض پڑھادینے سے دین کا کام ہوجاتا ہے، انھیں کون بتائے کہ م دین کا کام کرنے کا وقت اب آیا.
گھر والے چاہیں تو عالم کو فارغ البال کرسکتے ہیں لیکن اسے بھی طلب معاش کے لیے مصروف رکھتے ہیں، گھر سے چندہ کی موٹی رقم نکلتی ہے، عالم بھائی کسی دینی کے لیے پیسوں کی تلاش میں ہوتا ہے، گھر والے مشورہ کرتے ہیں کہ یہ رقم فلاں تحریک کو دی جائے، یا فلاں مدرسے کو دی جائے، یا غریبوں میں تقسیم کی جائے، بات در اصل یہ ہے کہ عالم تو وہ ہے جو دوسروں کے گھر پیدا ہوا ہے گھر میں جو ہے اس کو اور اس کے کام کو دین سے کیا تعلق؟
فارغ البالی تو بڑی چیز ہے، صرف گھریلو مصروفیات کا بار ہی کم کردیں تو بڑی نوازش ہوگی، محلے میں یا دور کے رشتے دار میں شادی ہو تو وہاں حاضر ہونا اور وہاں کی تمام نسوانی اور غیر شرعی رسومات میں شرکت کرنا ضروری ہے، ورنہ ابا حضور کہیں گے کہ آٹھ سال مدرسے میں کیا پڑھا، تم کسی کی شادی میں نہیں جاؤ گے تو تمھاری شادی میں کون آئے گا، وہاں جا کر کسی غیر شرعی رسم پر زبان کھولے تو پریشانی نہ کھولے تو پریشانی
اگر کوئی دین کے نام پر ساری پریشانیاں جھیل کر کچھ کر بھی دیں، اور لوگ زبان طعن دراز کریں تو بجائے اس کے والدین اور اہل خانہ اس کا جواب دیں الٹے اپنے عالم بیٹے سے کہتے ہیں کہ آج تک ہم سے کسی نے کچھ نہیں کہا، لیکن جب سے تم مائک پہ آنے لگے سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا، پتہ نہیں کیسے تقریر کرتے ہو، تم سے پہلے فلاں نے تقریر کی سب خوش ہوگئے، اور تمھاری تقریر میں صرف یہ غلط وہ غلط، یہ غلط وہ غلط، نہ کوئی جوش نہ کوئی شعر، نہ کہیں اتار چڑھاؤ، نہ کہیں نمک مرچ.
اب ایسے کوئی با صلاحیت عالم کیا کرے، اسے تو کسی مفر کی تلاش ہوتی ہے، اور اگر بہت تنگ آگیا تو پھر مدفن کی تلاش شروع ہوجاتی ہے.
یہ مفروضے نہیں، مشاہدات ہیں مشاہدات
منقول۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments