Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا بھارت کی حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں؟


میں  پیشہ سے مدرس ہوں اور اسکول کی دی ہوئی رہائش میں اپنی بیوی اور دوسال کی بچی کے ساتھ رہتا ہوں، اسکول میرے گھر سے لگ بھگ پچاس کلومیٹر دور ہے، ماں باپ سے ملنے چھٹیوں کے علاوہ مہینے میں دو۔تین بار گھر جاتا رہتا ہوں، ۲۱نومبر ۲۰۱۸ء کو عید میلاد النبی ﷺ کی چھٹی میں گھر آیا تھا، ۲۲نومبر کو رخصت اتفاقیہ لے کر رک گیا، ۲۳نومبر کو گرونانک جینتی کی چھٹی تھی، ۲۴ نومبر کو بھی چھٹی لیا تھا کیوں کہ یہی ایک دن بچ رہا تھا اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔
میرے ساتھ یہ پہلا اتفاق تھا کہ مجھے سنیچر کو اسکول جانا پڑا، میڈیا، شوسل میڈیا اور پھر افواہوں نے کچھ حد تک ڈرا دیا تھا، کیوں کہ ۲۵ نومبر ۲۰۱۸ء کو ایودھیا میں بہت کچھ ہونے والا تھا، عام لوگ اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بس یہی تھا کہ ۲۵ نومبر کو بابری مسجد کی جگہ پر ’’رام مندر‘‘ کی سنگ بنیاد رکھی جائے گی، حالانکہ نہ تو وشو ہندو پریشد نے اور نہ ہی شیو سینا نے ایسا کچھ کرنے کو کہا تھا، دونوں مندر تعمیر کی نام نہاد قسم لینے ایودھیا پہنچ رہے تھے۔
راستے میں بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے، کچھ بازاروں کا تو یہ حال تھا کہ وہ بالکل بھگوا رنگ میں رنگ گیے تھے، ان بڑے بڑے پوسٹروں میں نیتاؤں کی بڑی بڑی تصویریں بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھیں، لیکن شاید انھیں سننے والے کم ہو گیے ہیں، کچھ نیتاؤں نے تو تصویروں میں نہیں بلکہ منہ کھول کر کہہ دیا کہ ۱۹۹۲ء کی تاریخ دہرائی جائے گی، لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں، امن پسند لوگ دہشت میں تھے ، ۱۹۹۲ء کے فسادات میں اڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ مارے  گیے تھے، یقیناًمرنے والوں میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ ہندو بھی تھے، ایسا لگ رہا جیسے زیادہ تر لوگ اس ٹریجڈی کو بھلا نہیں پائے ہیں، اسی لئے تو امید اور دعوے سے بہت کم لوگوں نے ’’چلو ایودھیا‘‘کے نعرے پر لبیک کہا۔
ہندوستان میں پرچموں اور علامتوں کی سیاست نئی نہیں، آج پورا سڑک بھگوا جھنڈوں سے سجایا رہا ہے، تو دن پہلے یہی سڑک عید میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے سبز پرچموں سے سجایا گیا تھا، لیکن سڑک  وہیں رہی اور جتنے گڈھے پہلے تھے آج بھی ہیں اور شاید ’کرسمس ڈے‘ پر بھی اسی طرح رہیں۔
ایک نوجوان موٹر سائیکل پر جھنڈیاں لئے بڑے جوش وخروش کے ساتھ ادھر اُدھر لگا رہا تھا، اس کے ہاؤ بھاؤ سے معلوم پڑ رہا تھا جیسے وہ کوئی تاریخی کام کر ہا ہے، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس کا یہ کام بھاجپا کے ’’مارگ درشک منڈل ‘‘میں بیٹھے ان نیتاؤں سے بڑا نہیں ہے، بابری مسجد شہادت کے ہیرو تھے، اور آج ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
جیسے جیسے ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات قریب ہوتے جا رہے ہیں، ماحول کو گرمائے رکھنے کی پوری کوشش ہو رہی ہے، اب تو نیتاؤں کی زبان اتنی بے لگام ہوتی جا رہی کہ  وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں ، جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں۔
۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو بابری مسجد۔ رام جنم بھومی پر چلی فقط تین منٹ کی سنوائی میں سپریم کورٹ نے اگلی سنوائی  جنوری ۲۰۱۹ء تک ٹال دی، اس کے بعد ہندونواز تنظیموں طوفانِ بد تمیزی شروع کر دی، شیو سینا نے ’ادھو ٹھاکرے‘نے رام مندر کا انتخابی مدعا بھاجپا کی جیب سے چرانے کی کوشش کرتے ہوئے ۲۵ نومبر کو اپنی پوری لشکر کے ساتھ ایودھیا آنے کا اعلان کیا، انتخابی مدعے کو پکڑ سے کھسکتا دیکھ کر بھاجپا معاون ہندووادی تنظیموں نے بھی اسی دن ایودھیا میں ’دھر م سبھا‘‘ انعقاد کر دیا، پھر کیا تھا ٹھاکرے نے تو حکومت پر سیدھا حملہ بولا اور آرڈینینس یا قانون کی مانگ کی، اور وشو ہندو پریشد نے حکومت کے کاموں کی تعریف کرتے ہوئے آرڈینینس یا قانون کی مانگ کی ،  اور پھر رپورٹوں کی مانیں تو دونوں وہیں پر آ کھڑے ہوئے جہاں سے چلے تھے، یعنی حقیقت یہی ہے کہ معاملہ  سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کورٹ  کے فیصلے دستورِ ہند، ثبوتوں اور قوانین پر مبنی ہوتے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ وہاں پر مسجد تھی، اور اسے آزاد بھارت اور دستورِ ہند کے لاگو ہونے کے بعد گرایا گیا ، جو قانونی اور آئینی نقطہ نظر سے بہت بڑا جرم تھا، دی ٹائمس آف انڈیا کی ۱۳ جولائی ۲۰۱۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اسی معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بابری مسجد کو ہندو طالبان  نے ڈھایا تھا‘‘۔
اتنی بات تو صاف ہے کہ اس حکومت کے پاس دکھانے کے لئے زیادہ کچھ ہے نہیں اس لئے نقلی مدعوں کو ہوا دے رہی ہے، اور طاقت بھر ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے، رزرو بینک، سی بی آئی جیسے اداروں کا انتظام   برباد ہو گیا ہے اور اب سب سے بڑی عدالت پر بھی بھاجپا کے نیتا نما فسادی بے سروپا تبصرہ کرنے سے نہیں چوک رہے ہیں، اتر پردیش سے بھاجپا منتری مکت بہاری ورما نے ایک بار کہہ مارا تھا کہ سپریم کورٹ ہمارا ہے، فیصلہ رام مندر ہی کے حق میں آئے گا، سیاق کلام سے بالکل ظاہر تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے مگر سوال اٹھنے پر انھوں نے صفائی دے دی کہ ’’ہمارا‘‘ سے مراد پورے ملک کے لوگ ہیں۔
ایک سیکولر ملک کے لئے یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو کسی ایک مذہب سے جوڑ یدا جائے۔
ایودھیا میں منعقد دھر م سبھا سے پہلے اور اس کے بعد ملک میں نیتاؤں کے بیانوں سے جو ماحول بن رہا ہے اس کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ عدلیہ اور حکومت آمنے سامنے آ رہے ہیں حالانکہ ابھی تک بھاجپا کے بڑے نیتاؤں سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا ہے لیکن انھوں نے ان زہرآلود بیانوں  کی مذمت بھی نہیں کی۔
اس وقت بھاجپا اور آر، ایس، ایس، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد وغیرہ ہندووادی تنظیموں کے بیچ کا رشتہ چھپا نہیں رہا ہے، یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کیوں کہ بھاجپا اپنی حکومت کا حساب کتاب ، آر، ایس ، ایس کو دیتی ہے، ساتھ ہی بھاجپا نیتا یہ اب یہ بھی کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ ان کی اصلی تنظیم آرایس ایس ہے۔
بہر حال آر ایس ایس  کے موہن بھاگوت سبری مالا پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی  عوامی جلسوں میں مذمت کرتے  ہیں اور بھاجپا کے نیتا اس فیصلے کے خلاف احتجاج میں رہنمائی کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو عوامی جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔
دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق آرایس ایس نیتا اندریش کمار نے سپریم کورٹ کے ان تین ججوں کے خلاف زہر اگلا ہے جو اس معاملے کی سنوائی کر رہے ہیں، بلکہ صاف لفظوں میں ان کو دھمکایا ہے، ان کے بیان کےاہم نکات دی انڈین اکسپریس اور دی وائر کی رپورٹ کے مطابق یہ   ہیں کہ:
·     انھوں نے کہا کہ حکومت رام مندر بنانے کےلئے قانون لانے والی تھی لیکن ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے کی وجہ سے اس نے ایسا نہیں کیا۔
·     میں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے کیوں کہ ۱۲۵ کروڑ ہندوستانی ان کا نام جانتے ہیں، تین ججوں کی بینچ۔۔انھوں نے معاملے کو نظر انداز کیا، اس کی نفی  کی، اس  کی بے حرمتی کی۔
·     اندریش کمار نے یہ بھی کہا کہ کیا ملک اتنا بے بس ہے کہ دوتین ججوں کو لوگوں کے یقین، جمہوریت، دستور اور دستوری حقوق کا گلا گھوٹنے دے۔
·     کمار نے آگے کہا: ’’کیا آپ اور میں بے سہارا ہوکر دیکھتے رہیں گے؟ کیوں اور کس کے لئے؟ جو دہشت گردی کو آدھی رات میں سن سکتے ہیں ، وہ امن کو بے حرمت کر دیں، یہاں تک انگریزوں کو بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ عدالتی کارروائی پر ایسا ظلم کر سکیں۔
·     دو تین ججوں کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے، سبھی لوگ انصاف کا انتظار کر رہے ہیں، لوگوں کا ابھی بھی یقین ہے، لیکن دوتین ججوں کی وجہ سے عدلیہ، ججوں اور انصاف کی بے حرمتی ہوئی ہے، اس معاملے کی جلد سنوائی ہونی چاہیے، مشکل کیا ہے؟
·     ’’آج تک‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اندریش کمار نے کہا :’’بھارت کا دستور ججوں کی بَپَوتی نہیں ہے، کیا وہ قانون سے اوپر ہیں؟
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ بھارت کا دستور کسی کی بپوتی نہیں ہے اور نہ ہی بھارت۔ راحت اندوری کے لفظوں میں:
سبھی کا خون ہے شامل وطن کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس لئے کورٹ کا فیصلہ آنے دیجیے، اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں، جب تمام دعوے داروں  نے کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کیا جائے گا۔
بات دراصل یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ ماحول کو مذہبی فساد میں بدلنا چاہتے ہیں جنوبی ہند میں سبری مالا کو لے کر اور شمالی ہند میں ’’رام مندر ‘‘کو لے کر ،تاکہ ووٹوں کو بٹورا جا سکے۔
آرایس ایس کے اس نیتا کا بیان اس وقت آیا جب کہ بھاجپا صدر امت شاہ نے باکل  صاف کر دیا تھا کہ ان کی پارٹی عدالت کے فیصلے کا انتظار کرے گی اور کوئی آرڈیننس یا قانون نہیں لانے والی ہے۔
ان تمام پہلوؤں سے دال میں کچھ کالا دکھ رہا ہے، اب دنیا کا پیٹرن ہوتا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نظر و فکر سے عاری کر دینے میں نیتا اپنی پوری طاقت جھونک دے رہے ہیں، کیوں کہ ایک عقل وشعور والی عوام میں یقین اور ضعیف الاعتقادی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اس لئے دنیا بھر کے بڑے نیتا جذبات اور یقین کا سہارا لے کر اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں، چاہے وہ امریکا کے ٹرمپ ہوں یا بھارت کےمودی اور ان کی پارٹی۔
لیکن یہ بات بڑی بھیانک ہے کہ حکومت ، دستور ہند کے خلاف کھڑی ہو رہی ہے، یا اس طرح کا کام کرنے والوں کو بڑھاوادے رہی ہے، جو بھارت جیسے ملک کے لئے نہایت خطرناک ہے، چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے یومِ دستور ہند ۲۶ نومبر ۲۰۱۸ کو اپنے ایک خطاب میں کہا ’’دستور ہند کے سجھاؤں پر دھیان دینا ہمارے حق میں سب سے بہتر ہے اور ایسا نہیں کرنے سے لاقانونیت تیزی سے بڑھے گی۔

غلام سید علی


Post a Comment

0 Comments