تو کیا اب یونیورسٹیوں سے بھی سچ غائب کیا جائے گا۔۔۔۔۔؟
![]() |
photo credit to google |
کیا یہی نیا بھارت ہے کہ
حقائق پر پردہ ڈالاجائے؟کیا اب یونیورسٹیوں میں بھی وہی پڑھایا جائے گا جو
انتہاپسند تنظیمیں (آر،ایس ،ایس ، ہندو مہا سبھا، بجرنگ دل وغیرہ) چاہیں گی؟ کیا
اب پڑھے لکھے لوگ بھی شدت پسندوں کے کرتوت سے بے خبر رہیں گے؟
۱۸جولائی ۲۰۱۹ء کو انڈین اکسپریس میں ایک خبر
دیکھ کراس طرح کے سوال ذہن میں آئے، ہوا یہ کہ کچھ ہندووادی لوگوں کو دلّی
یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کچھ مواد پر اعتراض تھا، جس میں ان کی شرپسندی دکھائی
گئی تھی، انگریزی کے نصاب میں Maniben alias Bibijaan(منی بین عرف بی بی جان) کے زیرِ عنوان ایک کہانی تھی جو گجرات
دنگوں پر مبنی تھی، اس میں آر،ایس، ایس، بجرنگ دل
وغیرہ کے صحیح کردار کو پیش کیا گیا تھا اور فسادات میں ان کے رول پر روشنی
ڈالی گئی تھی۔اسی طرح انگریزی صحافت کے نصاب میں مظفر پور فسادات کا تذکرہ تھا،جس سے
ہندووادیوں کا مکروہ چہرہ نکل کر سامنے آتا تھا، ان سب کو نصاب سے ہٹا دیا گیا،
مزید اسی انگریزی شعبہ کے نصاب میں شامل کچھ مواد ابھی زیرِ غور ہیں، جس میں بھی
ان انتہا پسندوں کی انتہا پسندی پر بات ہوگی ،سب کو شاید نکال دیا جائے۔
علاوہ ازیں تاریخ ، سماجیات
،سیاسیات اور ادب کے نصابوں میں شامل کچھ مواد پر اعتراض کیا گیا ہے،جس میں ان
ہندو دیومالاؤں پر بحث ہے جو علم و عقل سے پرے ہیں، ان تمام پر بھی نظر ثانی کی
جارہی ہے، عین ممکن ہے کہ ان کو بھی خارج کر دیا جائے۔
بھارت ،جس کےدستور کی
تمہید میں سیکولر اور شوسلسٹ جمہوریہ بنانے کےعزم کے ساتھ ملک و عوام میں سائنسی
شعور پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے اس کے
لیے یہ بہت خطرناک ہے کہ اس میں ذات پات، اونچ نیچ اور علم و تحقیق سے دور دیوماؤں
پر یونیورسٹیوں میں بھی بات نہ کرنے دیا جائے،ان سماجی برائیوں پر گفتگوکرنے سے
اکثریتی طبقے اور اونچی ذات کے احساسات واعتقادات کو ٹھیس پہنچنے کا حوالہ دے کرکیا
اس پر بات نہ کی جائے کہ حق مساوات دستورِ ہند کے ذریعہ مل جانے کے باوجود آج بھی دلتوں کی بارات کو روکا جاتا ہے، ان کوگھوڑی
پر سوار ہوکر بیاہ میں جانے کی اجازت نہیں
دی جاتی ، نہ ماننے کی صورت میں ان کی بارات پر حملہ کیا جاتا ہے، اگر یونیورسٹیوں
اور اسکولوں میں ان پربحث نہ کی جائے تو کیا ملک کو ایک بار پھر دھیرے
دھیرے عہد ظلمات کی طرف ڈھکیل دیا جائے؟ جس میں اچھوت کے گھر میں پیدا ہونے کا
مطلب کسی جنم کے گناہوں کی سزا مانا جائے، اور طاقت بھر اس کو ذلیل کیا جائے، ان
کو علم ، فضل، راستہ، سواری، تالاب پانی،وغیرہ تمام چیزوں سے دور رکھا جائے، حتی
کہ ان کی آبادی بھی اس طرح علیحدہ بسائی جائے کہ ہوابھی وہاں سے گزر کر بڑی ذاتوں
کی آبادی تک نہ آئے۔
آخر کیوں اس پر بات نہ کی
جائے کہ ان ہندووادی دہشت گردوں نے گجرات اور مظفرپور فسادات میں سیکڑوں بے گناہ
مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ہزاروں زندگیاں برباد کر دیں؟ کیوں اس بات کو
نئی نسل تک نہ پہنچائی جائے کہ ملک کی فضا میں بجرنگ دل جیسے دہشت گرد گروہوں نے زہر گھول دیاہے، نفرت
و حیوانیت کی گرم بازاری پچھلی دو تین دہائی میں جتنی تیزی کے ساتھ ان
تنظیموں نے کی ہے اتنی تو آزادی ہند اور
قیام پاکستان کے وقت بھی نہیں تھی۔
![]() |
photo credit to google |
لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا
یہ لوگ بھارت کی یونیورسٹیوں کے نصاب سے اپنے کالے کارناموں کو نکال کر عالمی
برادری میں بھی محب انسانیت اور محب وطن یا وطن پرست تنظیم کے طور پر اپنی شناخت
بنا لیں گے؟تو اس کا جواب ہے نہیں اور ہرگز نہیں، کیوں کہ دنیا اندھی نہیں ہے!
۴جون ۲۰۱۸ کو امریکہ کی
سنڑل انٹلجنس ایجنسی (CIA)نے
اپنافیکٹ بُک Fact bookجاری کیا جس میں ہندو مہا سبھا اور بجرنگ دل کومذہبی دہشت گرد گروہ کہا۔
ہُڈسن انسٹی ٹیوٹ (امریکہ) کے لیے مذہبی آزادی ، حقوق انسانی وغیرہ موضوعات پر
کام کرنے والے دانشور پاؤل مارشل نے جو ن ۲۰۰۴ کو اپنے ایک مقالے ‘‘ہندوازم اینڈ ٹیرر’’میں لکھا ہے:‘‘پچھلی دہائی میں
،ہندو انتہا پسندوں نے عیسائیوں پر حملے بڑھا دیے ہیں، یہاں تک کہ اس وقت ہر سال
سیکڑوں حملے ہو جاتے ہیں، لیکن امریکہ میں اس پر خبر نہیں بنتی خبر صرف اس وقت
بنتی ہے جب کسی غیر ملکی پر حملہ کیا جاتا ہے، ۱۹۹۹ میں گرہم اسٹینس (ایک
اسٹریلین مبلغ جو کہ جذام کےمریضوں کے لیے
تین دہائیوں تک کام کر چکا تھا) اس کو اس کے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اڑیسہ میں زندہ
جلا دیا گیا، فروری ۲۰۰۲ میں گجرات میں مسلموں پر بہیمانہ مظالم نے ہندو انتہا
پسندی کی طرف دنیا کی توجہ کر دی،دو سے تین ہزار مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی صرف اس خبر پر کہ مسلمانوں
نے ہندو نیشنلسٹ بھری ٹرین کو نذر آتش کر دیا، جس میں کئی درجن لوگ مارے گیے۔
چند پیراگراف کے بعد پاؤل مزید لکھتے ہیں: ‘‘بھارتیہ جنتا
پارٹی جس نے ۱۹۹۸ سے سینٹرسٹ پارٹیوں کو
ملا کر حکومت بنایا، اس کی آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے سانٹھ
گانٹھ ہے، اور وہ سنگھ پریوار کے سیاسی شعبہ کے طور پر کام کرتی ہے، وزیر اعظم اٹل
بہاری باجپیی کھلے عام آر ایس ایس کی تعریف کرتے ہیں، اور اس کی مجلسوں میں شریک
ہوتے ہیں، ۔۔۔۔۔
بھارتیہ جنتاپارٹی نے اسکولوں
کے ایسے حکام کی تقرری کی ہے جو درسی کتاب اور نصاب تعلیم میں تبدیلی کریں، اور ہندوازم پر
زور دیں، وہ یہ بھی ضروری گردانتے ہیں کہ ہندو درسیات تمام اسکولوں میں
پڑھائےجائیں علاوہ ازیں ان لوگوں نے سنگھ پریوار کے لوگوں کو خود مختار اداروں کے
اہم عہدوں پر بیٹھا دیا ہےمثلاً پرسار
بھارتی،( جو کہ میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے،) نیشنل فیلم دیولپ منٹ کارپوریشن، دی
انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ،اور نیشنل بُک ٹرسٹ وغیرہ۔
یاد رہے پاؤل نے یہ مضمون اس وقت لکھا تھا جس وقت اٹل بہاری وزیر اعظم
تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ آدمی تو ٹھیک ہے مگر پارٹی غلط ہے،لیکن
موجودہ وزیرِ اعظم تو وہی شخصیت ہیں جن کے
وزیرِ اعلیٰ رہتے گجرات فسادات ہوئے تھے، مزید برآں انھوں نے تو دہشت گردی کے ملزم
کو بھی ممبر آف پارلیمنٹ بھی بنا دیاہے۔
بہر کیف ! پوری دنیا جانتی
ہے کہ اس وقت ہندوستان کوشدید خطرہ کسی
اور نہیں بلکہ ہندو انتہا پسندی سے ہے،
آئے دن ماب لنچنگ کی واقعات ہو رہے ہیں، مسلمانوں کے خلاف رات ودن پروپیگنڈہ کیا
جارہا ہے، ان کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کی شبیہ کو مسخ کیا جا رہا ہے،
ہندوستانی اسلامی تاریخ کا ذکر فقط اسی لیے ہوتا ہے کہ اس وقت ہندؤں کو جبراً مسلمان
بنایا گیا ، مندروں کو توڑ کر اس کی جگہ پر مسجدیں بنائی گئیں ، جو ایسےجھوٹ ہیں
جس پربھولا بھالا آدمی بھی اگر غور کرے تو
وہ بھی یقین نہیں کر پاتا ہے، ذرا سوچیں اگر مسلمان حکمران ہندؤں کو جبراً مسلمان
بنانا ہی چاہتے تو ان کو روکنے والا کون تھا؟ نہ تو عالمی برادری کا دباؤ تھا، نہ
تو اقوام متحدہ تھا، کوئی نہیں تھا، لگ بھگ آٹھ صدیوں تک اسلامی حکومت رہی، اگر
جبراً مسلمان بناتے تو ایک صدی کیا ،دو چار دہائیوں میں ہی پورا ہندوستان مسلمان
ہو جاتا۔اسی طرح اگر مسلمان حکمراں مندروں کو توڑ کر مسجد میں تبدیل کرتے تو آج
ہندوستان میں اتنے پرانے پرانے مندر نہ ہوتے، مزید برآں ذرا بنارس، ایودھیا اور
دیگر ہندو ں کے تیرتھ استھانوں میں موجود مندروں کی سن تعمیر دیکھیں تو ان میں
زیادہ تر ایسے مندر ہیں جو اسی زمانے میں تعمیر ہوئے جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔
0 Comments