یونانی فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ “انسان ایک سماجی جانور ہے" ۔ میں نے سماجیات میں جب اس قول کو پڑھا تھاتو بڑا عجیب محسوس ہوا تھا، انسان کو جانورکہا جا رہا ہے؟ ۔۔۔ مجھے لگا کہ اُس عقل مند انسان نے پوری انسانی قوم کو “جنگلی جانور " کہہ دیا ہو، لیکن بعد میں غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ اُس نے جانور سے پہلے "سماجی" کا لفظ ا کیا ہے، پھر جاکر میرا ٹینشن کم ہوا۔۔
مطلب یہ کہ انسان اور عام جانوروں میں فرق اتنا بھر ہے کہ انسان سماجی ہوتا ہے اور عام جانورسماجی نہیں ہوتے ہیں ، یعنی اگر انسان سماجی نہیں رہ جاتا ہے تو اس کےاورعام جانوروں کےدرمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔
بہت لمبےعرصے سے انسان نے سماجی بننے کا ڈھونگ کیا۔میں ڈھونگ ہی کہوں گا کیوں یہ قوم کب آپس میں برسر پیکارہوجائے،کچھ کہانہیں کہاسکتا،مُجھے لگتا ہے کہ کمزوروں کے منہ کا نوالا چھیننا، مظلوموں پر مزید ظلم کرنا، بے بسوں کا مذاق اڑانا، مجبوروں کو گھر،زمین سےبےدخل کردینا، عام جانوروں نے انسانوں سے ہی سیکھا ہے، عام جانور تو ان تمام چیزوں میں انسان کے شاگرد ہی لگتے ہیں۔
اس وقت تقریباً پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل چکی ہے، دنیا کے الگ الگ حصے میں لوگ اپنے اپنے اسٹائل میں اس سے نپٹ رہے ہیں، ابھی تک معلوم علاج کے طور پر اس کا سب بہترین علاج اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مل پایا ہے کہ ’’سماجی دوری‘‘ بنائی جائے، مطلب دلوں میں دوری تو پہلے ہی تھی، اس #کورونا وائرس نے سماجی مکھوٹے کو بھی اتروا دیا، اور ایسا لگتا ہے کہ کافی دنوں تک یہ انسان کوسماجی بھی نہیں رہنے دے گا، یعنی انسان کے بارے میں ارسطوکے قول سے اس وقت ’’سماجی‘‘ بھی نکل چکا ہے، اور اب انسان صرف جانور ہو کر رہ گیا ہے۔
ویسے انسانی سماج میں ’’جانور‘‘دو معنوں میں بولا جاتا ہے،پہلے معنی میں وحشت،بے رحمی، قساوت اور بے دردی مراد ہوتا ہے جب کہ دوسرے معنی میں اجڈ پن، حماقت، بے عقلی اوربے وقوفی پنہاں ہوتی ہے، پہلا معنی تو پوری دنیا میں ہرانسانی سماج میں کم وبیش پایا جاتا ہےلیکن دوسرا معنی اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ چاہے کہیں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو مگر ہندوستان میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے،خاص طور سے 2014کے بعدتو دوسرے معنی والے جانوروں کی تو بہار آ گئی ہے،بالخصوص اس جانور کی جسے دھوبی کپڑا ڈھونے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔یعنی گدھوں کی۔۔اتنی بھیانک وبا کے دور میں بھی یہ لوگ اپنی حماقت کی نئی نئی داستانیں لکھے جا رہے ہیں۔
۱۔جون ۲۰۱۷ میں احمقوں کے اس گروہ نے ہمدرد کے لذیذمشروب‘‘روح افزا’’ کےبائی کاٹ کا ہیش ٹیگ(Hashtag) چلایا اور غلط پیغام کے ساتھ اس مشروب سےہندؤں کو دور کرنے کی کوشش کی، میں بالکل حیران تھا کہ صاف ستھری چیزوں سے بنے اس شربت میں انھیں ک کہاں سے نظر آگئی، بات یہاں تک بڑھی کہ ہمدرد کو صفائی دینی پڑی کہ ہمارے یہاں ہندو بھی کام کرتے ہیں۔
بات در اصل یہ ہے کہ یہ لوگ گائے کے پیشاب کو روح افزا سے لذیذ مانتے ہیں، بھاجپا کےایک ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ گائے کا گوبر کوہِ نور ہیرا سے زیادہ قیمتی ہے، اب ظاہر سی بات ہے جب پوری دنیا اس بھیانک وبا سے پریشان ہے اس وقت ہندوستانی احمق کیوں کر اپنے اس پسندیدہ مشروب کا استعمال نہیں کریں گے۔
۱۴ مارچ ۲۰۲۰ کو دوپہر ۱۲ بجے سے راجدھانی دہلی میں ایک پارٹی ہوتی ہے، تقریباً ۲۰۰ لوگ جمع ہوتے ہیں ،یہ کوئی ع پارٹی نہیں تھی، بہت خاص پارٹی تھی، ک وائرس سے بچنے کے لیےاور ا کی روک تھام کے لیے، ہندو مہا سبھا کی جانب سے منعقد کی گئی ’’گو موترپارٹی‘‘ تھی جس میں شامل تمام لوگوں کی ضیافت گائے کے پیشاب سے کی گئی، حماقت کی انتہا ہی کہی جا سکتی ہے کہ اس کے پارٹی کے لیڈر ٹیلی ویژن پر آتے ہیں اور اس کے فوائد بتاتے ہیں، حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ گائے کے پیشاب سے بننے والے پروڈکٹ کی مارکیٹ میں کمی ہونے لگی یعنی فروخت بڑھ گئی۔
‘‘گوموتر پارٹی ’’ کا انعقاد کرنے والے پورے بھارت میں اس طرح کی پارٹی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،جس کا اظہار انھوں نے باضابطہ میڈیا میں کیا،اسی طرح کی ایک پارٹی کا انعقاد بنگال میں ہوا، لوگ جمع ہوئے اور سب کو گائے کا پیشاب پلایا گیا، ہمیں اس بات کی کوئی معلومات نہیں اور نہ ہی میڈیکل سائنس نے اس بات کی تائید کی ہے کہ گائے کے پیشاب میں کسی بیماری کے لیے علاج ہے،ہاں اس بات کا یقین ضرور ہے کہ ناپاک چیزوں میں شفا ر ہی نہیں گئی ہے، میڈیکل سائنس نے بھی یہی کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس سے کورونا وائرس کا اثر کم ہو جائے گا ہاں ! اسے پی کر بیمار ہو جانے کا امکان ضرور ہے ، اور ہوا بھی یہی کہ بنگال میں گائے کے پیشاب والی پارٹی میں شاملایک آدمی شدید بیمار ہوگیا، پارٹی رکھنے والوں کے خلاف جب ایف آئی آر ہوا تو بھاجپا نیتا بھی گائے کے پیشاب کی طرف سے دفاع میں لگ گئے۔
۲۱ویں صدی میں اگر یہ سب ہو رہا ہے،تو ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کرنے والے وہی مخصوص جانور ہیں جسے دھوبی کپڑا ڈھونے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
۲۔ 19 مارچ 2020 کو انگریزی ہندی کے ساتھ دنیا کی تمام زبان کو ایک نیا لفظ ملا "جنتا کرفیو" ۔ وزیر اعظم نریندر م نے اعلان کیا کہ 22 مارچ کو عوام اپنے اوپر خود کرفیو لگا لے اور گھر سے باہر نہ نکلے، آئیڈیا تو ٹھیک تھا اس لیے سب نے خیر مقدم کیا، لیکن گڑبڑی یہاں ہو گئی کہ اسے ایونٹ بنانے کے چکر میں یہ اعلان کر دیا کہ پانچ بجے شام میں باہر نکل کر کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے کی صلاح دے ڈالی۔
ہوا یہ کہ خر دماغوں نے اسے کورونا وائرس پر فتح کے جشن کے طور پر لیا اور جلوس کی شکل میں سڑکوں پر اُتر آئے ، بات تھی اکٹھا نہ ہونے کی اور میڈیکل ورکرس کے شکریہ کی، اور ان اندھوں نے اسے ’’مودی ایونٹ‘‘ بنا دیا اور بیچارے ڈاکٹروں اور دوسرے میڈیکل ورکرس کا شکریہ تو کہیں کھو کر رہ گیا۔
ان احمقوں کی حماقت کا اثر یہ ہوا کہ صرف مہاراشٹر میں بارہ گھنٹوں کے اندر 35 نئے معاملے سامنے آئے ۔۔۔
آج جب یہ بلاگ لکھ رہا ہوں،میرے کانوں میں تھالی بجانے کی آواز آ رہی ہے، آج 24 مارچ ہے مگر میرے گاؤں میں 22 مارچ سے اب تک روزانہ کچھ لوگ ٹھیک 5 بجے شام کو تھالی اورتالی بجا رہے ہیں، شاید ان کا خیال ہے کہ اس سے کورونا وائرس بھاگ جائے گا۔۔
قاعدے سے ہونا یہ چاہیے کہ خود وزیر اعظم کو سامنے آ کر اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ کام کسی اندھ وشواس کی وجہ سے نہیں کہی گئی تھی اور اس طرح سے شکریہ ادا کرنے کا طریقہ اٹلی اور دوسرے ممالک کی نقل تھی، لہٰذا اسی طرح ردِّ عمل کیا جائے جس طرح اُن ممالک کی عوام نے کیا تھا، یا وہ کر رہے ہیں۔۔۔ہندوستانیوں کی طرح ردِّ عمل ہر گز نہ کیا جائے۔۔
وزیر اعظم کے اس اعلان کی وجہ سے ،اوراُن کی پارٹی کے بے تکے لیڈروں کے آوارہ بیانوں کی وجہ سے اس مشکل وقت میں ضعیف الاعتقادی اور اندھ وشواس بڑھ رہاہے، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ اُن کی پارٹی کا پورا وجود اسی اندھ وشواس پر ٹکا ہوا ہے، کیوں کہ فی الحال یہ لوگ اس دستورِ ہند کی حفاظت کی قسم کھا کر اقتدار میں ہیں، جس میں تمام شہریوں کو یہ ذمّے داری د گئی ہے کہ وہ سائنسی رجحان پیدا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورونا وائرس سے متعلق تمام معاملوں کے لیے یہاں کلک کریں
بھارت کے بارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی گائڈ لائن کے بارے میں یہاں کلک کریں
3 Comments
Bilkul sahi
ReplyDeleteThanks
Deleteاس مضمون کو ضرور پڑھیں
ReplyDelete