Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

Be Sure That Human is helpless

covid-19 تازہ اپ ڈیٹ کے لیے یہاں کلک کریں  وبائی امراض پر سلسلۂ بلاگ  ۔۱
इस लेख को हिन्दी में पढ़ने के लिए यहां क्लिक करें

مان لیں کہ انسان یقیناً کم زور و لاچار ہے۔


کہنے کو دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے، لیکن کیا اس نے کر لی ہے؟ اس وقت تو ہمیں لگتا ہے کہ انسان سات آٹھ سو سال پہلے جہاں تھا وہیں آج بھی ہے، ایسی بھی رپورٹس آئی ہیں کہ انسان اس وقت اپنی ذہانت کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہے؟اس وقت تو ہمیں ایسا نہیں لگتا، انسان جتنا مجبور کل تھا آج بھی ہے، یقیناً انسان کمزور ہی ہے[1]۔
ایک وبائی مرض آتا ہے، ہزاروں لاکھوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے، ہزاروں کروڑوں  ماہرین طب (medical scientists) اس  وبا کے آگے گھٹنے ٹیک  دیتے ہیں، ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں، عاجزودرماندہ رہ جاتے ہیں، ان کے پاس کوئی دوا نہیں، کوئی علاج نہیں، بس وہی صدیوں پرانا  ،فرسودہ بلکہ ‘‘دقیانوسی’’طریقہ علاج ہی سے کام چلایا جا رہا ہے،سماجی دوری  اور کوارنٹین (quarantine)، جدید انسان اور پرانا طریقہ علاج۔حیرت اس بات پر ہے کہ بہت کم لوگوں کو اس پر حیرت ہے!!

کیا ہے کوارنٹین(quarantine

اتالوی لفظ ‘‘quarantino’’ سے بنا ہے جس کا معنی ‘‘چالیس دن کا وقت’’ہوتا ہے، بحیرہ ایڈیٹک کےبندرگاہی شہر راگوسا (موجودہ ڈبرؤنک) نے  چودہویں صدی میں‘‘سیاہ موت’’ (گلٹی والے طاعون) کی بھاری تباہی کےوقت ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق شہر میں آنے والے تمام جہازوں اور تجارتی قافلوں کے لیے یہ لازم کیا گیا کہ ان کو اس وقت تک کسی سے ملنے جلنے نہ دیا جائے اور انھیں بالکل تنہائی میں رکھا جائے  جب تک کہ ثابت نہ ہو جائے کہ ان کے اندر طاعون کا وبائی مرض نہیں ہے ۔
’’اس حکم نامہ (جس کا ڈبرؤنک کے محفوظات میں بچ جانا بجائے خود حیرت انگیز ہے  ) میں لکھا ہے کہ ۲۷ جولائی ۱۳۷۷ ء کو شہر  کی اعلیٰ کونسل  نے قانون پاس کیا  جس میں یہ مطالبہ تھا کہ جو طاعون زدہ علاقوں کے آتے ہیں، انھیں راگوسا یا اس کے ضلعوں میں اس وقت تک داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جب تک کہ وہ ایک مہینہ جزیرہ مرکان میں یا کیوٹاٹ قصبے میں گزار نہ لیں، تاکہ بیماری بے اثر ہو جائے۔  [2] ‘‘

ہسٹری ڈاٹ کام کےمطابق  پہلے انھوں نے تیس دن کے کوارنٹین کی مدت رکھی اس لیے اس طریقہ علاج کو پہلےٹرنٹینو (Trentino) کہا گیا ، پھر عیسائی مذہب میں چوں کہ چالیس کا عدد بہت متبرک ما نا جاتا ہے اس لیے اسے بڑھا کر چالیس دن کر دیا گیا، اور اس طریقہ علاج کو کوارنٹینو (quarantino)  کہا جاتا تھا، یعنی ایسا علاج جس میں چالیس دن الگ ٹھلگ رکھ کر بیماری کو ختم کیا جاتا ہےتاکہ اس  کی بیماری دوسروں کو متعدی نہ ہو، انگریزی زبان میں یہی لفظ   (quarantine) بن گیا۔۔
          آج کل یہ لفظ پوری دنیا میں پھر سے چلن میں آگیا ہے، جو اس کا تلفظ بھی نہیں کر پاتے وہ بھی بولنے کی کوشش کرتے ہیں، وجہ وہی کہ پوری دنیا میں نوول کرونا وائرس  کی وباء پھیل چکی ہے، اور ہر ملک اس مرض کی روک تھام کے لیے یہی طریقہ استعمال کر رہا ہے۔
(جاری۔۔)





[1] وخلق الانسان ضعیفا (القرآن ،نسا ۲۸)
[2] Expelling the Plague: The Helth office and Implementation of quarantine in Dubrovnik 1377-1533 by zlata Blazina Tomic & vesna Blazina

Post a Comment

0 Comments