ذرا سوچیں!
![]() |
photo credit to google |
ہند وپاک کے درمیان بٹوارے کے بعد ہندوستانی
مسلمانوں میں جس تیزی کے ساتھ علمی انحطاط آیا ، اس کا اندازہ ہر اس شخص ہے جو قوم
کے حالات سے باخبر رہنا چاہتا ہے، اور آج آزادی کے نصف صدی سے زیادہ مدت گذر جانے
کے بعد حکومت نے کمیشنوں کے ذریعہ ہماری پس ماندگی کو پورے طور پر کھول کر رکھ
دیا، اور ہمارے سامنے آئینہ رکھ دیا تاکہ اس میں ہم اپنی قوم کے چہرے کے خد وخال
کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھ لیں۔
چنانچہ
سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ہمیں بتا دیا کہ ہماری اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی حالت ملک
میں سب سے زیادہ پس ماندہ تسلیم کیے جانے
والے گروہ یعنی دلت قوم سے بھی بد تر ہو چکی ہے۔
ہمیں
اپنی قوم کی حالت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس
قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جب تک اسے
خود اپنی حالت درست کرنے کی فکر نہیں ہوتی،لہذا ہمیں قومی وملی مسائل پر سر جوڑ کر
غور کرنا چاہیے اور ان کے تدارک کی تدبیریں بھی کرنی چاہیے۔
آج
ہندوستان میں یہ حال ہے کہ راستے اگرٹوٹے
پھوٹے ہوں، بستیاں اگر گندی ہوں، وسائل ارسال و ترسیل کی اگر کمی
ہو، وہاں کے لوگ اگر خوب شور و غوغا کرتے ہوں، جگہ جگہ پر رات رات بھر اگر نعرہ
بازی ہوتی ہو، بستیوں میں رہنے والے اگر غیر تعلیم یافتہ ہوں، اکثریت اگر مزدور
طبقہ سے متعلق ہو ،تو لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ شاید یہ مسلمانوں کی بستیاں
ہیں۔۔۔کتنے افسوس کی بات ہے ۔۔کتنے شرم کی بات ہے ۔۔۔ہمارا دین صفائی ستھرائی کو
ایمان کا حصہ بتاتا ہے۔۔ہمارا دین ہمیں تہذیب سکھاتا ہے ، انسانیت سکھاتاہے ،
پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتا ہے، علم حاصل کرنا ‘‘فرض’’بتاتا ہے۔۔لیکن پھر
بھی ہمارا یہ حال۔۔
ایک وقت
وہ بھی تھا جب مسلمان ساری دنیا پر اپنی علمی برتری کا لوہا منوا رہے تھے، دور
وسطیٰ medieval periodکی تاریخ کا
اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن سےزیادہ
عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا کا علمی اثاثہ عربوں ہی کے واسطے دوسری قوموں تک
پہونچا ہے، خواہ وہ یونانی فلسفہ ہویا سائنسی علوم ، یا سماجی علوم مثلاً سماجیات
، نفسیات، جغرافیہ، یا ڈاکٹری ہو انجینئرنگ، سب کے سب مسلمانوں ہی کے واسطے
سے مغربی ممالک کو پہونچے اور آج مغرب
انھیں اپنی ملکیت بنائے پوری دنیا پر اپنا علمی دھونس جمائے ہوئے ہے، ان تمام
باتوں کا تحقیقی ثبوت معلوم کرنے کے لیے
مندرجہ چند مسلمان مفکرین کا مطالعہ کافی ہوگا، مثلاً سماجی علوم میں علامہ ابن
خلدون کا ‘‘مقدمۂ تاریخ’’، اس میں موجودہ تمام سماجی علوم کی بنیادی مل جائیں گی۔
ان کے علاوہ جغرافیہ میں بیرونی ڈاکٹری
میں ابن سینا، وغیرہ
علاوہ
ازیں مسلم اسپین کی علمی تاریخ کا مطالعہ
اگر میسر آجائے تو میری بات تسلیم کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہ ہوگا۔
مطلب یہ کہ علم و آگہی ہمارا کھویا ہوا سرمایہ ہے، ہمیں اسے
تلاش کرنا چاہیے، اس فکر کرنی چاہیے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا نہ کبھی کسی
مسئلہ کا حل بنا ہے اور نہ بن سکتا ہے ۔
0 Comments