جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا
ایک کہانی سنیے، بڑی زوردار ہے! آپ سوچ رہے ہوں گے ،یہ بھی کوئی وقت ہے ؟ ملک کی راجدھانی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں ہے،لوگ مار اور مر رہے ہیں،آبادیوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے، دلّی جل رہی ہے، اور حکمران پہلے تو سپر پاور امریکہ کے "دروغ گو صدر" کی آمد کے جشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور پھر اُن کے جانے پر یہ سوچ رہے ہیں کہ بھارت کو ملا کیا؟ زیادہ تر میڈیا "پوری دنیا میں بھارت کا ڈنکا بجانے میں" لگی ہے، كچھ آگ لگی دلّی میں جلی ہوئی لاشوں کو گننے میں ، کچھ نیتا دنگا بھڑکانے میں لگے ہیں تو کچھ یہ بتانے میں کہ سب کچھ نارمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے قصہ کہانی کا!!
تو صاحب اس کہانی کے لیے اس سے بہتر وقت ہو ہی نہیں سکتا،تاریخ کی کتابوں میں "قدیم سلطنت روم " کا نام تو سب نے دیکھا ہوگا ،یہ اس وقت کی سلطنتوں میں طاقت ور ترین تھی، اس کے بادشاہوں کو "قیصر"کا خطاب دیا جاتا تھا۔
شہر روم بڑا پر عظمت اور پر رونق شہر تھا، اتنا کہ اس کی عظمت کی داستان آج بھی بیان کی جاتی ہے، آج بھی دنیا کی اکثر زبانوں میں اس شہر پر متعدّد کہاوتیں اور ضرب الامثال استعمال کیے جاتے ہیں۔جیسے۔
• روم ایک دن میں نہیں بنا تھا۔۔۔ Rome was not built in a day
• روم میں رومیوں جیسا کرو......When in Rome……do as Roman do
• تمام راستے روم ہی کی طرف جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔All roads lead to Rome
• روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔۔۔۔۔ (Nero
was playing with)fiddle while Rome burns
بات ہے سن 64 عیسوی کی، یہ عظیم شہر مسلسل چھ دنوں تک اور بعض کے مطابق نو دنوں تک جلتا رہا، بھیانک آگ میں دہکتا رہا، جعل سازی اور دھوکا دھڑی سے سلطنت روم پر قابض حکمراں"نیرو" کا دور اقتدار تھا،شہر کا ستر فیصدی حصّہ جل کر خاکستر ہو چکا تھا، اس کی آدھی آبادی بےگھر ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔
مورخین کہتے ہیں کہ نیرو کلاسیکی رومن موسیقی کا دل دادہ تھا،بانسری بجانے میں ماہر روزگار تھا، گیتوں کے بول اور دھن خود ہی لکھتا پھر خود ہی گاتا تھا، لوگوں کا مجمع اکٹھا کرکے اور اُن کی تالیوں کی گونج میں اپنی بنائی ہوئی د ھنوں پر بانسری بجاتا تھا ،خود بھی وجد میں آ جاتا اور زمین کو بھی بد مست کے دیتا تھا۔۔۔
روم جل رہا تھا اور نیرو ،روم سے 35میل دور انٹیم Antium میں اپنے محل کے پرائیویٹ تھیٹرمیں بانسری بجا رہا تھا، اس کا ایک ملازم گھبرایا ہوا، ہانپتا کانپتا اس کے پاس آیا اور تقریباً چیخ کر بولا:"اے شہنشاہِ روم ! اے دیوتاؤں کے دیوتا! اے عظیم نیرو! میں اپنے آنکھوں سے دیکھ کر اس رہا ہوں کہ روم جل رہا ہے"
نیرو نے سرد لہجے میں جواب دیا:"تو کیا بانسری کے اس دھن کو یہیں پر چھوڑ دوں؟ اگر چھوڑ بھی دوں تو کیا اس جگہ سے جلتے ہوئے روم سے اٹھنے والے شعلوں کا نظارہ کر سکوں گا؟" اتنا کہہ کر نیرو بانسری کے دھن میں مگن ہی ہونے والا تھا کہ ملازم پھر چیخا:"جہاں پناہ !پورا شہر شعلوں کا سمندر بن چکا ہے، دھوئیں نے ماحول میں گھٹن پھیلا دی ہے، دھوئیں کے بادلوں میں گھر کر لوگ مر رہے ہیں، روم کے باشندے جس طرف بھی منہ کرتے ہیں، آگے آگ ہی آگ ہے"
نیرو اس کے جواب میں بانسری کے سر بکھیر چکا تھا۔۔۔۔۔
آتش زدگی کے بعد جب وہ سوالوں کے گھیرے میں آیا تو بڑے ہی حقارت آمیز لہجے میں اس نے کہا :"میں نے شعلے تو دیکھے نہیں اور مجھے مجبور کیا جا رہا ہے کہ میں شہر کو آتش زدہ قرار دوں"۔
اب اس بارے میں اختلاف ہے کہ نیرو بانسری ہی بجا رہا تھا یا کچھ اور؟ انگریزی زبان میں لفظ fiddle آیا ہے، جس کی معنی سارنگی ہوتا ہے، مورخین کا نظریہ ہے کہ آلہ موسیقی رُباب viol بھی گیارہویں صدی عیسوی کی پیداوار ہے جس کی ترقّی یافتہ شکل سارنگی یعنی fiddle ہے، یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ نیرو پہلی صدی عیسوی میں سارنگی بجا رہا تھا۔۔
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ وہ سارنگی نہیں ، ستار cithara بجا رہا تھا، لیکن ہندوستانی زبان میں بطورِ کہاوت یہی مشہور ہے کہ وہ بانسری بجا رہا تھا۔۔
کچھ بھی ہو بہر حال وہ کچھ نہ کچھ ماہرانہ انداز بجا رہا تھا، اور شہر میں تباہی ، بربادی،قتل، غارت گری کا ننگا ناچ ہو رہا تھا۔
بہت سے لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آگ خود نیرو نے ہی لگوائی تھی، اور لوٹ مار ،قتل و غارت گری بھی وہی کرا رہا تھا، اُس کا منصوبہ تھا کہ وہ پورے شہر کے ایک تہائی حصے کو نیست ونابود کرکے اس پر اپنے محلات تعمیر کرائے گا، جنہیں دنیا نیرو پولس کے نام سے جانے گی۔۔۔
پورا شہر برباد ہو جاتا ہےیقیناً"روم ایک دن میں نہیں بنا تھا " مگر 10دن کے اندر ۔اندر خرابات میں تبدیل ضرور ہو جاتا ہے۔
دوئی پسند اور بت پرست نیرو جب شہر میں آتا ہے تو اپنی مذہبی انتہا پسندی کی تسکین کے لیے،آگ لگانے کا الزام "یکتا پرست عیسائیوں" پر لگاتا ہے،جو اس وقت اقلیت میں تھے، اور پھر اُن پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔کرب ناک اور ہولناک سزائیں دیں، بہتوں کو پاگل کتوں کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی بربادی کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ ملک کی مالی حالت ناگفتہ بہ ہو گئی تھی، نیرو نے شہر کی تعمیرِ نو کے لیے امیر و غریب کا امتیاز کیے بغیر طرح طرح کے اور بھاری ٹیکس عائد کر د ئے، جس سے عوام میں بےچینی پھیل گئی، اور لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔
محض 31 برس کی عمر میں نیرو کو بے سر و سامانی کے عالم میں ، اپنے ملک سے دور ، گمنامی میں خود کشی کرنی پڑی تھی، ہزاروں بے گناہوں کے قاتل نیرو کا تعاقب وہی فوج کر رہی تھی جو 13 سال سے زیادہ مدت تک اس کے حکم کے انتظار میں کھڑی رہتی تھی۔۔۔۔
رومیوں میں بہت دنوں تک یہ افواہ رہی کہ نیرو مرا نہیں ہے،وہ واپس آئےگا۔۔۔۔مرا ہوا بھلا کہاں آتا ہے۔۔لیکن شاید وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔۔۔کیوں کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے والے اور فرقہ پرستانہ جنون کی آبیاری کے لیے فسادات کرانے والے حکمران، اس دھرتی کے الگ الگ حصوں پر الگ الگ ناموں سے جنم لیتے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
3 Comments
Masha Allah, very good essay
ReplyDeleteAnd very helpful
We should Learn a lesson from this didactic event
Allah may protect you
Thank u,
DeleteYour name is not shown
Please mention your name so I can recognize u
Nice
ReplyDelete