تقریباً پوری دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب جب کوئی بڑی بَلا آئی ہے ، تو اکثریتی طبقوں نے اقلیتی اور سیاسی طور پر کمزور لوگوں کو اس بَلا کی وجہ بتا دیا، کیسے بتایا؟ چھوٹی افواہوں کے ذریعہ، پروپیگنڈہ کے ذریعہ۔ چلئے تھوڑی سی کرونالوجی سمجھتے ہیں۔
طاعون عظیم (سیاہ موت)[زمانہ زور1346۔1353ء ](تیسری قسط)
ابھی
کچھ دن پہلے بھارت میں کویڈ۔۱۹(نوول کرونا وائرس)
پھیلانے کا ذمہ دار مسلمانوں کو بتایا گیا،بات اتنی تھی کہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داران صحیح وقت پر صحیح
فیصلہ نہیں لے پائے اور اچھی خاصی تعداد میں جماعتی لوگ تبلیغی جماعت کے مرکز، دہلی، میں تالابندی(لاک
ڈاؤن) کی وجہ سے پھنس گئے، اور ان لوگوں میں کچھ لوگ کرونا وائرس مثبت (positive)پائے گئے، پھر کیا تھا،بھارت کی مسلم مخالف
میڈیا کو اس وبا کا ٹھیکرا پھوڑنے کے لیے نہایت موزوں اور مناست سر مل گیا، اور
ہندووادی نیتاؤں کو اس مشکل حالت میں بھی
نفرت کی سیاست گرم رکھنے کا ماحول۔۔نہ سودھی نہ ہرّے پھر بھی رنگ چھوکھا۔
میرا
ماننا ہے کہ اگر تبلیغی جماعت والا معاملہ نہ ہوتا تب بھی انھیں کسی طرح مسلمانوں
کے سر اس کا الزام رکھنا تھا، کیوں کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم
ہے کہ کس وقت اور کس طرح اکثریتی طبقہ میں اپنی کمزور پڑتی پکڑ کو مضبوط کیا جا
سکتاہے، نفسیاتی طور پر آفتوں اور بلاؤں کے وقت بہت سے سائنٹفک دِکھنے والے بھی
توہّم پرست ہو جاتے ہیں، حقائق کو چھوڑ کر قصے ،کہانیوں اور من گھڑت دیوماؤں پر
اعتقاد کر بیٹھتے ہیں، اور ویسے ہندوستان تو قدیم زمانے ہی سے توہم پرستی میں
مشہور ہی ہے۔۔
تقریباً
پوری دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب جب کوئی بڑی بَلا آئی ہے ، تو اکثریتی طبقوں
نے اقلیتی اور سیاسی طور پر کمزور لوگوں کو اس بَلا کی وجہ بتا دیا، کیسے بتایا؟
چھوٹی افواہوں کے ذریعہ، پروپیگنڈہ کے ذریعہ۔ چلئے تھوڑی سی کرونالوجی سمجھتے ہیں۔
پہلی صدی میں سلطنت روم بھیانک آگ لگی تھی، بہت سے مورخین کا ماننا ہے کہ آگ خود قیصر
روم ‘‘نیرو’’ نے ہی لگوائی تھی، پورا شہر
جہنم بن جاتا ہے، لیکن افواہوں کا سہارا لیا گیا اور الزام اقلیتی
گروہ‘‘عیسائیوں’’کے سر رکھا گیا، اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، ان کا قتل
عام کیا گیا، بہتوں کو پاگل کتّوں کے سامنے ڈال دیا گیا۔۔
اسی
طرح سے طاعون عظیم کے موقع پر بھی ، طاعون پھیلانے کا الزام یورپ میں ‘‘یہودیوں ’’پر رکھا گیا، انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے:‘‘پورے
یورپ میں ‘‘یہودی منافرت کے جذبات ’’میں حدّت آگئی، کیوں کہ ‘‘سیاہ موت’’کو
پھیلانے کا الزام انھیں کے سر مڑھا گیا تھا، ‘‘پر تشدّد یہودی قتل عام ’’ کا دور
شروع ہو گیا، پوری یہودی آبادی کو بھیڑ (mob)نے یا تو قتل کردیا یا نذرآتش کر دیا۔۔
مارک
کارٹ رائٹ)mark cart wright)نے
انشینٹ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا کے اپنے
مقالے ‘‘بلیک ڈیتھ’’ میں لکھا ہے: ‘‘(الگ الگ لوگوں نے اس وبا کی وضاحت الگ الگ
انداز میں کی)۔۔جب کہ بہت سے لوگوں نےاپنے روایتی دشمنوں پر الزام دھرا، ان کا صدیوں
پرانا جلن نکل کر سامنے آگیا، انھوں نے خاص گروہوں، خاص طور سے یہودیوں کو نشانہ
بنانااور ان کا قتل عام کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ (حملے سے بچے کھچے )ہزاروں
یہودی پولینڈ کی طرف مہاجرت کر گیے۔۔’’
۳۱؍دسمبر
۲۰۰۹ کو نیویارک ٹائم میں ‘‘وباء کے زمانے میں قربانی کے بکرے کی تلاش’)Finding a scapegoat when epidemics strik)کے زیرِ عنوان ایک مضمون
چھپا تھا جس میں اس ذہنیت پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ، ‘‘سیاہ موت’’ کے دور میں
یہودیوں کی حالت پر اس میں لکھا ہے:
‘‘دور
وسطیٰ کے یورپ میں یہودیوں کو (طاعون پھیلانے کا) اتنا زیادہ ملزم ٹھہرایا گیا،
اور اتنے بے حیا انداز میں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے اس وبا کو ‘‘بلیک
ڈیتھ’’ کے بجائے ‘‘جویس ڈیتھ’’(یہودی موت) کیوں نہیں کہا، اس وباء کے دورِ شباب
یعنی ۱۳۴۸
سے
۱۳۵۱ کے درمیان یہودیوں کے ۲۰۰ سے زیادہ گروہوں کا صفایا کر دیا گیا، ان لوگوں پر
اس وباء کے پھیلانےکا الزام رکھا گیا،
‘‘کنووں کو زہر آلود’’کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔۔
اقلیتوں
پر اس طرح کی ظلم و زیادتی کے واقعات تاریخ کے تہہ خانوں بے شمار پڑے ہوئے
ہیں، ہمیشہ مضبوط لوگوں نے حاشیہ پرپڑے لوگوں کو تمام آفتوں، پریشانیوں ، گندگیوں،
بیماریوں اور وباؤں کا سبب قرار دیا ہے، اس لیے اگر اس وقت نوول کرونا وائرس کو
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیاگیا تو اس میں کسی طرح کی حیرت کا اظہار
نہیں کرنا چاہیے ، کیوں کہ ظالموں نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔۔
ہمیں
تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم اقلیت میں ہیں، اور بطورِاقلیت چاہے جو ہو ،چاہے جہاں
ہو، وہ غیر محفوظ ہے،اکثریتی طبقے کو ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ یہی چند لوگ ان کی
تہذیب کو برباد کر رہے ہیں، اس لیے ہمشہ صرف
اپنے بچاؤ کی پوزیشن آجانے سے، نہ ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور نہ ہی آنے والی
نسلوں کو کچھ دے سکتے ہیں ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تو
کیا کریں ؟ اس لائق تو ہوں نہیں کہ قومی ملی ،سطح پر کوئی مشورہ دوں ،لیکن
پھر بھی ایک مثال بیان کرتا ہوں:
اس بار(سال ۲۰۔۲۰۱۹میں )
اسرائیل میں تین الیکشن ہوئے ، وجہ یہ تھی ایک سوبیس سیٹوں والی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے لیے تیس پارٹیوں نے الیکشن لڑا،
لیکن کسی کوبھی تین الیکشن ہو جانے کے
باوجود اکثریت حاصل نہیں ہوئی،عرب مخالف نتن یاہو کو بھی منہ کی کھانی پڑی تھی،
لیکن بیچ میں کورونا وائرس کی وجہ انھوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے سب سے نزدیکی
مخالف پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی ہے۔
اس وقت اسرائیلی پارلیمنٹ
میں صحیح معنوں میں حزب مخالف پارٹی(اپوزیشن پارٹی) جوانٹ لسٹ یا القائمۃ المشترکۃ
ہے جو اسرائیلی عرب کی تمام پارٹیوں نے مل کر بنائی ہے، اس میں شامل اہم پارٹیاں القائمة العربية الموحدة ،التجمع الوطني الديمقراطي(بلد) ، الجبهة الديمقراطية للسلام والمساواة اور الحركة العربية للتغيير ہیں، اس
وقت یہ پارٹی پندرہ سیٹوں کے ساتھ اسرائیل کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔
یہ بات بالکل طے مانی جا
رہی تھی کہ ‘‘نتن یاہو ’’اگر حکومت بنانے میں ناکام رہے تو گینٹز(Gantz )کی بلو اینڈ وہائٹ پارٹی(Blue and White)کے
پاس حکومت بنانے کے لیے جوانٹ لسٹ کو
حکومت میں شریک کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اور یہ امکان ہنوز برقرار ہے،
کیوں کہ کورونا وائرس کے بعداگر اسرائیل میں سیاسی اتھل پتھل ہوا تو جوائنٹ لسٹ کی
حیثیت ‘‘کنگ میکر’’ کی ہو گی۔
یہاں یہ بات دھیان دینے
کی ہے عرب پارٹیوں میں یہ اتحاد سیاسی نظریات میں اتحاد کی وجہ سے نہیں ہواکیوں کہ
سیاسی اسپیکٹرم پر اگر دیکھا جائے تو القائمۃ العربیۃ المتحدۃ اور التجمع الوطني الديمقراطي(بلد) بائیں بازو کی سیاسی پارٹی مانی جاتی ہیں،جب کہ باقی دونوں پارٹیاں سب کو
ساتھ میں لے کر چلنے کے نظریے Big
Tent))پر
سیاست کرتی ہیں ۔ یعنی ان پارٹیوں میں
نظریاتی اتحاد بھی نہیں ہے، لیکن اسلام اور مسلم مخالف طاقتوں کے ظلم کے خلاف سب
نے اپنے وجود اور اپنی عربیت کی بقا کے لیے سیاسی اتحاد کیا۔۔
ہندوستان میں مسلم مخالف
طاقتیں جنھیں مسلم سمجھتی ہیں وہ سب مل کر ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟پھر دہراوں
گا۔بطور اقلیت ہم غیر محفوظ ہیں؟
......................................
0 Comments