عالمی وباؤں پر سلسلہ بلاگ۔۳
کووڈ۔۱۹ [covid-19]اپڈیٹ۔۔۔یہاں کلک کریں
طاعون عظیم (سیاہ موت)[زمانہ زور1346۔1353ء ](دوسری قسط)
ابنِ خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے: ‘‘مشرق و مغرب کے تمدن میں آٹھویں صدی (ہجری یعنی چودہویں صدی عیسوی)کے وسط میں مہلک طاعون پھوٹ پڑا جس نے قوموں کی قومیں تباہ کردیں اور بہت سے خاندانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور آبادی کے محاسن و کمالات روند ڈالے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا حکومتوں پر یہ آسمانی آفت ان کے بڑھاپے میں ٹوٹی جب کہ وہ اپنی عمر کی انتہا کو پہنچ چکی تھیں اس نے ان کے سائے سمیٹ لیے، ان کی طاقت توڑ دی ان کا اقتدار کمزور کر دیا ان کے پاس مال نہیں رہا اور وہ قلاش و کنگال ہو گئے، طاعون نے لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار کر آبادیاں اُجاڑ دیں اور شہر سنسان ہو گئے، کارخانے اُجڑ گئے راستے اور راستوں کے نشانات مٹ گئے، مکانات مکینوں سے خالی رہ گئے اور قبیلوں اور مملکتوں میں کمزوری پیدا ہو گئی اور رہنے والے بدل گئے، مشرق میں بھی مغرب کی طرح یہی وبا اپنی آبادی کی مقدار میں پھوٹ پڑی ، گویا جب زبان مشیت نے عالم کو فنا کرنے کا اور سمیٹنے کا اعلان کیا تو فوراً دنیا نے اس اعلان کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا ۔اور الّلہ ہی زمین کا اور زمین والوں کا وارث ہے۔[1]
یرسینیا پیسٹس نامی جرثومہ کے سبب پھیلنے والا یہ مرض اتنا خطرناک تھا کہ جس کو لگا اس کے زندہ بچنے کی امیدصرف پانچ فیصد رہ جاتی تھی،کچھ لوگوں کو شدید بخار، قے، ناقابلِ برداشت سر درد، کمر درد ہوتا اور وہ درد کےمارے تڑپ تڑپ کر مر جاتے، کچھ لوگوں کو سوجن ہوتی ، گردن،ران اور بغلوں میں پھوڑے بن جاتے، جس کی وجہ بے انتہا اذیت ہوتی، اور ایسا بھی ہوتا کہ بعض لوگ جیسے ہی طاعون زدہ ہوتے ،فوراً مر جاتے۔۔۔
احمد بن علی مقریزی ( 845ھ) لکھتے ہیں :‘‘یہ وبا کوئی عام وبا نہیں تھی، کہ کسی ایک ملک میں ہو اور دوسرے میں ہو، بلکہ پوری دنیا کے مشرق و مغرب ، شمال وجنوب کے تمام ممالک میں پھیلی ہوئی، ہر طرح کے تمام انسانوں میں ، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیوں ، آسمان کے پرندوں، اور خشکی کے وحشی جانوروں میں۔۔[2]
یورپ کے لوگوں پر طاعون کا خوف اس قدر طاری ہو گیا تھا کہ مرض لگنے سے بچنےکے ڈاکٹر وں نے مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیا،پادریوں نے تدفین کی آخری رسومات کرنے سے معذرت کرلی، اور دوکان داروں اپنی دکانیں بند کر دیں۔[3]
اس وبا نے ایسا قہر برپا کیا تھا کہ اٹلی کے شہر ‘‘فلورنس’’سے تعلق رکھنے والا ،نشاۃ ثانیہ کاعظیم شاعر پیٹرییارچ اس بات میں شبہ ظاہر کرنے لگا کہ اگر ہماری بربادی کی داستانیں سنائی جائیں گی تو اگلی نسل اسے حقیقت کے بجائے دیومالائی افسانہ گمان کرے گی ، وہ لکھتا ہے :
آنے والی نسلیں خوش قسمت ہیں!جواس طرح کی المناک اور بڑی آفت کا سامنا نہیں کریں گی اور ہماری سچی باتوں کو افسانہ سمجھیں گی۔
فلورنس کا ہی ایک کالم نگار ان حالات کو اس طرح بیان کیا جس کے بارے پیٹرییارچ سوچتا تھا کہ آنے والی نسلیں جھوٹ سمجھیں گی:
’’تمام شہریوں نے مردوں کو دفنانے کے علاوہ شاید ہی کچھ کیا ہو۔۔۔ہر قبرستان میں تقریبا ً سطح آب تک گڈھے کھودتے تھے اور جو نادار غریب لوگ رات میں مرتے تھے ان کا جلدی سےگٹھر بنایا جاتااور گڈھے میں پھینک دیا جاتا، صبح کے وقت جب بہت سے مردے اس میں ہو جاتے تو پھاوڑے سے ان کے اوپر مٹی ڈال دیتے اور پھر دوسرے مردوں کو ان کے اوپر ڈالا جاتا پھر مٹی ڈال کر زمین کی دوسری پرت بنائی جاتی پھر دوسروں کو ان کے اوپر ڈالا جاتا ، اور پھر زمین کی ایک اور پرت۔۔اسی طرح سے پرت در پرت ۔۔جیسے پنیر اور پاستا کی پرتوں سے لسانیہ (lasagne)بنایا جاتا ہے۔‘‘
مورخ اولے جے بینی ڈکٹو (Ole J. Benedictow) نے اٹلی کے ایک اور اخبار کے حوالے سے لکھا ہے:
شہر سینا کی بہت سی جگہوں پر بڑے بڑے گڈھے کھودے جاتے لاشوں کی کئی پرت اس میں ڈھیر کی جاتی۔۔۔کچھ لاشوں کا یہ حال تھا کہ وہ اتنے اوپر دفن کیے جاتے کہ کتے انھیں آسانی باہر کھینچ لاتے اور پورے شہر میں بہت سی لاشوں کو نوچتے پھرتے۔۔۔[4]
یہی حال دنیا کے دوسرے ممالک کا بھی تھا، علامہ مقریزی نے لکھا ہےکہ ‘‘سن 748ھ[1347ء] کے ہریالی کے آخری ایام اور فصل خریف میں اس وبا کی شروعات ہو چکی تھی، اور ماہ محرم 749 ھ آتے آتے پورے ملک میں پھیل گئی، ماہ شعبان، رمضان اور شوال مصر کے لیے شدید ہوئے اور ذوالقعدہ کےنصف قاہرہ ،مصر میں ہر دن دس ، پندرہ یا بیس ہزار لوگوں کی موت ہوئی، لوگ تابوت اور بینچ سے بلااجر مردوں کو نہلانے کا کام لیا، زیادہ تر مردوں کو لکڑیوں کے پٹروں ، سیڑھیوں اور دروازوں کے پاٹ پر لے جایا گیا، بہت سے گڈھے کھودے جاتے اور مردوں کو اس میں ڈال دیا جاتا ، اور ایک گڈھے میں تیس، چالیس یا اس سے زیادہ مردوں کو دفن کیا جاتا۔[5] (جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
سوچنے کی بات
[یہ بات بھی کتنی دلچسپ ہے کہ میں نے جب اس موضوع پر مطالعہ کرنا شروع کیا، تو میں نے پایا کہ عالمی وباؤں میں بہت کچھ یکساں ہوتا ہے، مثال کے طور پر (۱)زیادہ تر وبائیں چین میں پیدا ہوئیں، (۲)پوری دنیا کے طبیب حیران و پریشان رہے مگر کچھ نہیں کر پائے اور کافی دنوں تک کچھ نہیں کر پائے، (۳) لوگوں کے پاس شوسل ڈسٹنسنگ اور کورنٹین کے علاوہ کافی دنوں تک کوئی دوا نہ رہی (۴) اور سب سے اہم بات کہ اکثر معاملات میں اکثریتی طبقوں نے اقلیتی طبقوں کو بیماری کا سبب بنا دیا ہے اور ان کی سزائیں دی ہیں۔۔۔۔۔ان مماثلتوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔۔ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں حاصل مطالعہ پیش کروں گا۔۔۔]
(1) مقدّمہ ابنِ خلدون (مترجم)
[2]کتاب السلوک لمعرفۃ دول الملوک جلد ۴ ص ۸۱۔
[3] Britannica.com
[5] السلوک لمعرفۃ دول الملوک جلد ۴ ص۸۰۔ ۸۱
سوچنے کی بات
(1) مقدّمہ ابنِ خلدون (مترجم)
0 Comments