Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

Parents role in upbringing of the children

#2

Add caption

ایک ننھے بچے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت دیکھئے جسے یہ نہیں معلوم کہ اس کے نانا لوگوں کو نماز پڑھارہے ہیں ،اس کو ڈانٹا نہیں ،بلکہ گردن سے اترنے تک صبروتحمل سے کام لیا،والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اوربچہ جب لاشعور کی منزل سے آگے بڑھ کر شعور کی منزل میں قدم رکھے تو اس کا سرپرست نرمی کے ساتھ اسے مناسب اورغیر مناسب باتوں کو سمجھائے۔

اصلاح وتربیت کیسے کی جائے؟

اصلاح وتربیت کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ نرم ،ہمدردانہ اورمشفقانہ انداز اپنایا جائے،ان کے سامنے اچھا نمونۂ عمل پیش کیاجائے،اورحکمت سے ان کی اصلاح کی جائے،انتہائی سخت ضرورت کے بغیر سختی ودرشت مزاجی سے کام نہ لیاجائے،وہ بھی ضرورت کے بقدر کہ نقصان دہ ثابت نہ ہو،اوربچہ اصلاح کرنے والے کو اپنا دشمن نہ سمجھ بیٹھے،بلکہ اندازِ اصلاح سے بچہ یہ سمجھے کہ اس کی اصلاح کی خاطر ہی اس کے ساتھ سختی وسزا کا برتاؤ کیا جارہا ہے،نہ کہ کراہت ودشمنی کے باعث تاکہ بچہ سرکشی وبغاوت پر نہ آمادہ ہوجائے۔
بچے کی تربیت میں اس کے ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے ،اس لیے اس کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کریں جو اس کے لیے ہری بھری کھیتی کاکام کرے،جس سے وہ اخلاق وعادات کی لذیذ اورپاکیزہ غذا حاصل کرے،اس کے کان اورنظر کا واسطہ کسی ایسی چیز سے نہ پڑے،جو مذہب واخلاق اورادب کے خلاف ومضر ہو،بچے کی عمر کے حساب سے اس کی تربیت واصلاح اورمعاملہ بندی ہونی چاہیے،چھوٹے بچوں کو بوسہ لینا ،ان کی زندگی اورعمدہ اخلاقی تربیت کے لیے خوشگوار اثرات پیدا کرتا ہے،اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی فیملی میں عزیز ومحبوب ہیں ،اورپھر فیملی اورگھروالوں کے لیے بھی ان میں محبت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے،جب کہ سختی اورشدت پسندی کا رویہ ان میں بھی سختی کرنے والوں کے لیے سختی اورشدت پسندی ہی پیدا کرتا ہے۔
صحابی رسول حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے ایک بار دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بوسہ دے رہے ہیں ،کہا،میری دس اولاد ہے ،میں نے کسی کو بوسہ نہیں دیا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو رحم نہیں کرتا ،اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
چھوٹے بچوں کی تربیت کے ضمن میں ان کے ساتھ دل داری اورخوش طبعی کرنا بھی ضروری ہے ،تاکہ ان کے ذہنی اورجذباتی قویٰ اورصلاحیتیں ابھرکرسامنے آئیں ،اوروہ اپنے تئیں اپنی شخصیت کا احساس کریں ،اورسمجھیں کہ ان کے ماحول میں ان کے وجود کی بھی کوئی حیثیت واہمیت ہے۔سن شعور سے پہلے اگر ان سے کوئی ناخوشگوار اورغیرمناسب بات سامنے آئے،تو والدین کو تحمل سے کام لینا چاہیے،حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے،کہ ناگہاں آپ کے نواسے حضرت امام حسین سجدے کی حالت میں آکر ،آپ کی گردن پہ سوار ہوگئے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وجہ سے دیر تک سجدے میں پڑے رہے،حتی کہ لوگوں نے سمجھا کہ کوئی نئی بات ہوگئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا:میرا بیٹا میرے اوپر سوار ہوگیا ،تومیں نے پسند نہیں کیا کہ جلدی کروں کہ اسے اپنی منشا پوری کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
ایک ننھے بچے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت دیکھئے جسے یہ نہیں معلوم کہ اس کے نانا لوگوں کو نماز پڑھارہے ہیں ،اس کو ڈانٹا نہیں ،بلکہ گردن سے اترنے تک صبروتحمل سے کام لیا،والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اوربچہ جب لاشعور کی منزل سے آگے بڑھ کر شعور کی منزل میں قدم رکھے تو اس کا سرپرست نرمی کے ساتھ اسے مناسب اورغیر مناسب باتوں کو سمجھائے۔
بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے اندر پنہاں فطرت بیدار ہوتی ہے ،اس کی فطرت ایک دودھاری تلوار ہے ،اگر اس کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ مفید ثابت ہوتی ہے ،اورغلط استعمال ہوتو مضر بن جاتی ہے۔
نوخیز بچوں میں ایک فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی چیز پر قابض ہونا چاہتے ہیں ،اوردوسرے کا تصرف برداشت نہیں کرتے،اس مرحلے میںاس کی اس طرح تربیت واصلاح کی جائے کہ وہ دوسروں کی ملکیت پر قابض نہ ہو اوراس طرح سے اس میں ظلم وجبر کے ذریعہ دوسروں کی چیز پر قبضہ کرنے کی عادت نہ پید اہوسکے۔
فطری طور سے بچوں میں ابتداء ً کھانے کی خواہش بہت ہوتی ہے ، یہ فطرت بعض بچوں میں غیر معمولی حدتک پہونچ جاتی ہے ،اس پر بھی کنٹرول ضروری ہے ،اسی طرح کھانے میں سلیقہ مندی بھی نہیں ہوتی ،تو اس کی اصلاح بھی لازم ہے،اولاً یوں کہ گھروالے کھائیں تو ٹائم سے اوراسلامی طور طریقوں کو ملحوظ رکھ کر تاکہ بچہ دیکھ کرسیکھے اورکھانے میں یہی اصول اپنائے ،ثانیاًگھروالے اسے بتائیں کہ بسم اللہ کرکے کھائے،خوب چباچباکر کھائے ،برتن سے اپنے قریب کا کھانا کھائے ۔
الحاصل بچے کی فطرت پر گہری نگاہ رکھی جائے اورابتداء ً اسے اچھی باتوں اوراچھے طور طریقوں کی طرف رہنمائی کی جائے،تاکہ جب وہ جوانی کے اہم مرحلے میں قدم رکھے تو سلیم الطبع اورمہذب وشائستہ ،سلیقہ مند اورخوش اطوار بن کر جوان ہو۔

بچے میں اگر کوئی اچھی عادت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ،اگر اتفاقیہ اس سے کوئی غلط یاغیر مناسب حرکت صادر ہو تو عیب پوشی کی جائے اوردوسروں کے سامنے عیب بیان کرکے اس کو رسوا نہ کیا جائے ،نہ کوساجائے ،اس سے نفرت وجرأت اورسرکشی وعداوت پیدا ہوسکتی ہے ،اورآپ کے تئیں محبت واحترام کا جذبہ ختم ہوسکتا ہے ،اسے پوشیدہ طور سے تنہائی میں تنبیہ کی جائے اوربھیانک انجام اورخطرات سے ڈرایا جائے۔
اسے یہ عادت ڈالنا بھی ضروری ہے کہ سامنے ،داہنے اورقبلہ کی طرف اوردوسروں کے سامنے نہ تھوکے ،نہ ناک صاف کرے،اسے بیٹھنے کا مہذب طریقہ بتایا جائے ،تاکہ غیروں کے سامنے پیر پھیلاکر نہ بیٹھے،اوراسے سخت تنبیہ کی جائے کہ بہت زیادہ اوربلاضرورت نہ بولے،اوراپنے سے بڑے کی بات غور سے سنے ،اس کے لیے کھڑا ہوجائے،اوراس کو بیٹھنے کے لیے جگہ کشادہ کردے،جب لغو ولایعنی اورفحش بات سنے تو مجلس سے ہٹ جائے ،یاتوجہ نہ دے،اپنے والدین ،اساتذہ اوردوسرے بڑوں کا احترام کرے،چاہے وہ اپنا ہو یاغیر اوران کے اچھے اخلاق وعادات دیکھ کر ان کو اپنا نے کی کوشش کرے،حضور علیہ السلام نے فرمایاہے:تم میں سب سے بہتر جوان وہ ہیں ،جو تمھارے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔
اسے یہ بھی تعلیم دی جائے کہ مال ودولت ،مرتبہ ومنصب اورذہانت وذکاوت کی وجہ  سے اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں فخر وناز نہ کرے،اپنے استاد کے سامنے ناک بھوں نہ چڑھائے بلکہ تواضع سے پیش آئے ،علم حاصل کرنے کے لیے تو تواضع وانکسار ی بہت ضروری اوراہم ہے ،حتی کہ چاپلوسی بھی درست ہے ،حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چاپلوسی مومن کا طریقہ نہیں ،مگر طالب علم میں ۔
جب بچہ فرائض کی ادائیگی میں ڈھیل سے کام لے ،تو اگر ایسا نادانی ولاعلمی کی بناپر ہو تو اس کو سمجھانا چاہیے ،اوراگر سستی وکاہلی کی وجہ سے ہو تو اس کو چست بنایا جائے ،اوراگر سرکشی کے سبب ہو تو حکمت کے ساتھ مناسب سرزنش کی جائے، مگر یہ خیال رہے کہ مناسب وقت پر سرزنش ہو اورمحض خیر خواہی کا جذبہ کار فر ما ہو ،عناد وانتقام کا شائبہ تک نہ ہو ۔
بالغ ہونے سے پہلے بچوںکے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ سے زیادہ کیا جائے تاکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف وخشیت پروان چڑھے،ان کے سامنے یہ بھی ذکر کیا جائے کہ پرہیز گاروں اورنیکوکاروں کو آخرت میں نعمت ملے گی،اورنافرمانوں اوربدعمل لوگوں کو عذاب ہوگا،تاکہ بچپن کی یہ اچھی تعلیم وتربیت بچے کے دل کی سادہ تختی پر نقش کا لحجر ہوجائے ورنہ بلوغ کے بعد اصلاح انتہائی دشوار کام ہوجائے گا۔
بچہ جب بالغ ہونے کے قریب ہو تو اسے جنس مخالف کے ساتھ اختلاط اورتنہائی سے دور رکھا جائے ،خاص طور سے ہم عمر بچیوں کے ساتھ سونا،بیٹھنا ،باتیں کرنا ممنوع قرار دے دیا جائے ،اس کا بستر اورخواب گاہ الگ کردی جائے ،کیوں کہ یہ زندگی کا انتہائی نازک اورخطرناک وحساس مرحلہ ہوتا ہے ،اس طرف سے والدین کی بے توجہی بچے کو جسمانی واخلاقی اوردینی ودنیوی حیثیت سے برباد کردیتی ہے۔
بچہ اگر حیادار ہے، تو اس کی حیا اس مرحلے میں اسے بہت سے مفاسد سے بچالیتی ہے ،اوروالدین کو اصلاح  وتربیت میں بھی مدد ملتی ہے اوراگر بچہ بے حیا ہوگیا تو پھرکتنی کچھ خرابیاں درآئیں کچھ نہیںکہا جاسکتا ۔لہذا بچے کو شرم وحیا کی طرف متوجہ کیا جائے اور غلط کاموں پر اسے عاردلائی جائے ،اس سے اچھی بات کی طرف رہنمائی میں مددلی جائے۔
اگر آپ خوش حال ہیں تو بچے کو اپنی خوشحالی اورمالداری سے بگڑنے کا موقع نہ دیں ،اسے ضرورت بھر خرچ دیں ،فضول خرچی،بے مصرف رقم خرچ کرنے اورہمیشہ زیب وزینت کرنے سے روکیں ،ناموری یاتحدیث نعمت کے لیے مالداری کا غلط استعمال ہلاکت کا باعث ہے ،کھانے ،پینے اورلباس میں سادگی اورمیانہ روی اختیار کریں ،اوربچوں کو بھی اسی کا عادی بنائیں ، ورنہ بہت زیادہ نازونعم کا پلا آپ کا بچہ رزق کے لیے جدوجہد ،ملک وملت کے لیے دفاع وتحفظ کی جنگ اوردیگردینی ودنیوی فرائض کی ادائیگی میں ناکارہ ثابت ہوگا۔
بچے میں اگر کوئی اچھی عادت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ،اگر اتفاقیہ اس سے کوئی غلط یاغیر مناسب حرکت صادر ہو تو عیب پوشی کی جائے اوردوسروں کے سامنے عیب بیان کرکے اس کو رسوا نہ کیا جائے ،نہ کوساجائے ،اس سے نفرت وجرأت اورسرکشی وعداوت پیدا ہوسکتی ہے ،اورآپ کے تئیں محبت واحترام کا جذبہ ختم ہوسکتا ہے ،اسے پوشیدہ طور سے تنہائی میں تنبیہ کی جائے اوربھیانک انجام اورخطرات سے ڈرایا جائے۔
ماں کو اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اپنے شوہر کی مدد کرنی چاہیے،اوربچوں کو ڈراتے رہنا چاہیے کہ اگر تم لوگ اپنی کوتاہی اورغلطی سے باز نہیں آئوگے تو میں تمھارے والد صاحب کو بتادوں گی،بچے میں یہ عادت بھی پیدا کرنی چاہیے کہ اس کے دوست ساتھی اگر غریب ،حاجت مند ہوں تو موقع بہ موقع حسب حیثیت ان کا تعاون کرے،اوران کے ساتھ محبت وشفقت کا برتاؤ کرے،اوراگر بچہ اقتصادی اعتبار سے کمزور ہے کہ لباس ،خوردونوش اوردیگر ضرروی اخراجات فراخی اورشان وشوکت سے پورے نہیں ہوپاتے تو بچے کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنے سے بھی زیادہ کمزور بچوں کو دیکھے ،اورجو کچھ اسے حاصل ہے ،اس پر قانع رہے ،اپنے سے زیادہ خوش حال وخوش پوش بچوں کی خوش حالی وخوش پوشی سے احساس کمتری کا شکار نہ ہو اوراس کے لیے فکر مند نہ رہا کرے ،بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اوربھروسہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ اس کو بھی خوشحالی عطافرمائے گا۔
بچے کو اس بات کا بھی عادی بنایا جائے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ موقع ملے تو گھر کے اندر معاش کے کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹائے اوران کا اطاعت شعار رہے ،بچے کو ہمیشہ تعلیم ،مطالعہ اورکام ہی میں نہ لگا ئے رکھا جائے، بلکہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ روزانہ کچھ وقت تفریح ،جائزکھیل کو داورورزش میں بھی بِتائے،بچے کو ہمیشہ قید میں رکھنا ،اس کی صحت اورذہنی نشوونما کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے اور ایسے بچے کی زندگی تلخ ہوکر رہ جاتی ہے ،پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ بچہ  عاجز آکر تعلیم اورگھر کے کاموں سے راہ فرار اختیار کرنے لگتا ہے ،کبھی کبھار ایسابھی ہوتا ہے کہ بچہ بغیر بتائے گھر چھوڑ دیتا ہے ،والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ وہ انھیں اپنے اچھے مستقبل کے لیے معاون وخیر خواہ سمجھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:اللہ تعالیٰ ایسے باپ پر رحم فرمائے جو خدمت واطاعت میں اپنی اولاد کامددگار ہو، یعنی غلط تربیت ،بدمعاملگی، بدزبانی، اوردواولادوں کے درمیان تفریق جیسی چیزوں سے بچے کونافرمانی پر مجبور نہیں کرنا چاہیے،بلکہ حسن تربیت اورنیکی کی تلقین کے ساتھ ساتھ اولاد کے درمیان یکساں سلوک رکھنا چاہیے۔
جب بچہ بڑا ہوجائے تو باپ اس کے ساتھ ایک ذمہ دار شریک کار کا سا برتاؤ کرے،اب بچے جیسا سلوک قطعاً مناسب نہیں ہے ،گھریلو معاملات میں اس سے مشورے کیا کرے،اورمناسب وصحیح مشوروں کو مانا کرے،اوراچھے مشوروں پر اس کی تحسین بھی کرے،تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو ،ورنہ بچے کی صلاحیتیں دبی رہ جائیں گی ،اوروہ آگے اپنی اوراپنی اولاد کے حق میں ناکارہ ثابت ہوگا۔بڑے ہونے پر اس کی جائز ضرورتوں کا خیال بھی ضروری ہے ،تاکہ بچہ بھی اپنے والدین کے بڑھاپے اورمجبوری کے وقت میں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔
ایک دانا نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ’’:تمھاری اولاد ایک پھول ہے ،جسے تم سات سال سونگھتے ہو ،پھر سات سال تمھارا خادم بن کر رہتا ہے ،پھر اس کے بعد تمھارا دشمن یاشریک کار ہوجاتا ہے‘‘
لہذا اولاد کو حسن تربیت اورحسن سلوک سے اپنا شریک کار بنانا چاہیے نہ کہ دشمن۔

Post a Comment

0 Comments