Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

Parents role in upbringing of the children

#1


اولاد،والدین کے ہاتھوں میں ایک امانت ہے،  والدین کو اپنی اولاد کی تربیت اوران کے دیگر معاملات کے سلسلے میں خدائے تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا،جس طرح ہر امانت ونعمت کی جوابدہی کرنی ہوتی ہے 

شادی کا مقصد:

اللہ تعالیٰ نے رشتۂ ازدواج کو محض جنسی لطف اندوزی اورپاکدامنی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے ،بلکہ اس کا سب سے اہم مقصد افزائش وبقائے نسل انسانی ہے ،تاکہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ بن کر زمین کی آبادکاری کرے اورروئے زمین اوراس پر پائے جانے والے جانداروں اوردوسرے موجودات کھیتی،معدنیات،اورآب وہواپر حکومت کرے،اورانھیں اپنی دنیوی اوراخروی صلاح وفلاح اورخیر وبہتری کے لیے استعمال کرے۔
خداوند قدوس نے جذبۂ شہوانی کوبقائے نسل کا ذریعہ بنایاہے،شہوانی جذبہ ہر مرد وعورت کے اندر ودیعت کیا گیا ہے ،تاکہ اس کے ذریعہ نسل انسانی کا تسلسل قائم رہے ،اورانسان روئے زمین پر خلافت الہیہ کے منصب کی ذمہ داریاں نبھاتا رہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘‘(البقرۃ)[میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بناؤں گا]
لہذا شادی سے ہر ایک مسلمان کا مقصدیہ ہونا چاہیے،کہ جہاں وہ شادی کے ذریعہ جنسی تسکین اورپاکدامنی کی غرض پورا کرتا ہے ،وہیں وہ منشائے ربانی کی تکمیل کے لیے نسل انسانی کی افزائش وبقا کا ذریعہ بھی ثابت ہو،تاکہ اس کا جنسی عمل اس کے لیے باعث اجروثواب بھی بن جائے،کیوں کہ حسن نیت کی بدولت مباح چیز اورجسمانی لطف اندوزی طاعت وعبادت بن جاتی ہے:رسول اللہ کا ارشاد ہے:
’’انما الاعمال بالنیّات وانما لکل امرئٍ مانویٰ‘‘(بخاری)اعمال کے ثواب کا مدار نیتوں پر ہے ،ہر آدمی کو نیت کا ثواب ملتاہے۔

بچوں کی اصلاح وتربیت کے سلسلے میں والدین سے جواب طلب ہوگا:

کسان اورباغبان اچھے ہوتے ہیں ،تو ان کی کھیتی اورباغات بھی اچھے ہوتے ہیں،لہذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی پرورش وپرداخت اورپاکیزہ تربیت کا خیال رکھیں ،تاکہ ان کی اولاد فضل وکمال اوراولوا لعزمی کے ساتھ جوانی کے دریچوں میں قدم رکھے،والدین ایک باغبان کی طرح ہیں ،جو اپنے باغ کی پیداواری صلاحیت بڑھاتے،اوراس کی سرسبزی وشادابی کے لیے آب پاشی سمیت دیگر تمام جتن کرتے ہیں،جس کے نتیجے میں ان کا باغ لہلہااٹھتاہے اورکثرت سے پھلتاہے،اورایساباغ دیدہ ودل اورجسم ودماغ کی تفریح کے علاوہ لذت کام ودہن کی تسکین کا سامان اوردنیاوی دولت وثروت کی کثرت کا سبب بھی بنتاہے۔
اولاد،والدین کے ہاتھوں میں ایک امانت ہے،  والدین کو اپنی اولاد کی تربیت اوران کے دیگر معاملات کے سلسلے میں خدائے تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا،جس طرح ہر امانت ونعمت کی جوابدہی کرنی ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:ـ
’’لتسئلنّ یومئذٍعن النعیم ‘‘(پارۂ عم ۳۰؍۸)قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کوہر ایسے برے کام سے بچائیں جو دنیا اورآخرت میں نقصان دہ ہو ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یاایھاالذین آمنو اقواأنفسکم واھلیکم ناراًوقودہا الناس والحجارۃ‘‘(التحریم ۲۸؍۶)
اے مومنو!اپنے کو اوراپنے لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ،جس کا ایندھن لوگ اورپتھرہیں۔
والدین کی ذمہ داری کے سلسلے میں رسول اللہ اکی اس حدیث سے بھی روشنی ملتی ہے،آپ فرماتے ہیں:
’’مرد اپنے گھروالوں کا نگراں ہے ،اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا،عورت اپنے شوہرکے گھر کی نگراں ہے ،اس سے اس کی ماتحتی کی چیزوں کا سوال کیا جائے گا۔ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ ہر نگراں سے اس کی ذمہ داری کا مواخذہ فرمائے گا،کہ آیا اس نے ذمہ داری پوری کی یااس کو چھوڑدیا۔
اصلاح وتربیت اہم اورضروری کام ہے:اولاد کی اصلاح وتربیت ایک دشوار ترین کام ہے ،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ صبراورحسن تدبیر عطاکرکے اسے آسان بنادیتا ہے۔اس لیے والدین کو بچوں کی نامناسب حرکتوں سے تنگ دل نہیں ہونا چاہیے،نہ ان کے ساتھ شدت پسندی سے کام لینا چاہیے،کیوں کہ اس کا الٹا اثر ہوتا ہے،اوربچے ضد پر آمادہ ہوکر اچھاکام کرنا تو کجا قصداًوہی بُراکام کرتے ہیں ،جس سے انھیں منع کیا جاتا ہے۔
بچوں میں جو نامناسب حرکت اوربے راہ روی دکھائی پڑتی ہے ،اسے مناسب اورمفید عمل میں بدل دینا ناممکن نہیںہے،بس والدین کو عجلت وبے صبری کے بجائے تحمل ،حسن تدبیراورحکمت سے کام لے کر تربیت کا انداز حسب موقع ذرانرم رکھنا چاہیے،تاکہ ان کا بچہ ان کے ،ان کے خاندان اورسماج کے لیے اچھی تربیت قبول کرکے باعث نیک نامی ثابت ہو،والدین کی شدت پسندی ،سخت گیری،اورعجلت پسندی کی وجہ سے بچے بددل اورمتنفرہوکر آوارہ گردی اوربے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں ،اوردنیاوآخرت دونوں میں اپنے اوراپنے والدین کے لیے باعث ننگ وعار بن جاتے ہیں ،حتی کہ بسااوقات والدین سے علاحدگی ،بدزبانی ،گالی گلوج اورزدوکوب تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
بچوں کا دل صاف وشفاف سادہ تختی کے مانند ہوتا ہے ،اس پر کوئی بھی نقش بنایاجاسکتا ہے ،وہ اپنے گھر اورسماج کے لوگوں سے جو کچھ بھی سنتے اوردیکھتے ہیں ،خواہ اچھی بات ہو یابری،اپنے دل پر نقش کرلیتے ہیں ،والدین اپنے ننھے منے بچوں کی دل کی اس تختی پر جو کچھ چاہیں نقش کرسکتے ہیں ،ان کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے،کہ وہ ان کے دلوں پر اچھوتے نقوش ہی ثبت ہونے دیں ،اورانھیں شروفساد کے نقوش سے محفوظ رکھیں ،اوران کے لیے گھر اورسماج کاایسا ماحول بنائیں ،جس میں وہ اسلام کے اچھے طوروطریقے اورپاکیزہ اسلامی تعلیمات دیکھیں ،اوراس ماحول کی اچھائیوں کو سیکھ کر اپنے دین اوراخلاق کی حفاظت کرسکیں،بچوں کو برے ساتھیوں اور ہمجولیوں سے دور رکھیں ،تاکہ وہ برے ماحول اورغلط سوسائٹی سے دیکھی اورسیکھی ہوئی باتوں سے بدعمل ،بدچلن،فحش گو اوربرباد نہ ہوجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری۔۔)

Post a Comment

0 Comments