Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

MAULANA MUEENUL HAQ ALIMI (ALAIHIR RAHAMAH)


حضرت علامہ معین الحق علیمی علیہ الرحمہ

غالباً 2004 ء کا سال تھا، مدرسے میں ایک بڑی خاص میٹنگ ہوئی، صدر اعلیٰ اورناظم تعلیمات طلبا سے تعلیمی صورت حال کا جائزہ لے رہے تھے، ہر جماعت کے تین تین بچوں کو بلایا گیا تھا، چوں کہ میں بھی ان تین تین میں سے ایک تھا، اس لیے مجھے بھی اس میٹنگ میں شریک ہونا پڑا تھا، طلبا کھل کر بات کر رہے تھے، اور میں حیر ت سے ان کا منہ دیکھ رہا تھا، حیرت اس بات پر تھی کہ یہ لوگ ان بڑے لوگوں کے سامنے بول کیسے پا رہے ہیں؟ پوری میٹنگ میں خاموش رہا اورسب کی باتیں سنتا رہا، کچھ تو سمجھ میں آئیں اور بہت کچھ سمجھ میں نہیں آئیں، میرا کام صرف اتنا تھا کہ منہ کھول کر بولنے والے کی باتیں نگلتا رہوں۔صدرِ اعلیٰ حضرت علامہ معین الحق علیمی تھے جو بولنے سے زیادہ سن رہے تھے اور ناظم تعلیمات پروفیسر غلام یحییٰ انجم تھے جو سننے سے زیادہ بول رہے تھے۔

ظاہر ہے ہر دور کے طلبا کو اساتذہ سے کچھ کچھ شکایتیں رہی ہیں، اسی طرح ہمارے دورِ طالب علمی میں بھی طلبا کو شکایتیں تھیں، جس کا انھوں نے بے باکانہ اور مردانہ وار کھل کر اظہار کیا تھا، لیکن آخر میں پروفیسر صاحب نے ایک شعر پڑھ کر ہم طلبا کے مطابق سب ‘‘کہے سنے’’ پر پانی پھیر دیا، آپ نے میٹنگ کی برخاستی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا:

آئینے پرغبار ہے، یہ ترے ذہن کا فشار ہے

جسے تھا سنورنے کا حوصلہ اسی آئینے میں سنور گیا

حضرت علامہ معین الحق علیمی علیہ الرحمہ کو دیکھا تو پہلے بھی  تھا لیکن بالکل قریب سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا، طلبا کے لیے آپ کی محبت  وشفقت کا کھلی آنکھوں سے نظارہ کیا تھا، ہمارے طلبا ساتھیوں کو بڑی نرمی کے ساتھ سمجھا رہے تھے، ان کی کچھ جارحانہ شکایتوں کو ہلکی سی مسکراہٹ میں ہی نپٹا دیا کرتے تھے۔

میٹنگ کے بعد اساتذۂ کرام تک طلبا کی شکایتیں پہنچیں، جن کی شکایت زیادہ کی گئی تھی، وہ لوگ ناراض بھی ہوئے، اور جن کی نہیں کی گئی تھی، ظاہر سی بات ہے وہ خوش ہوئے، مدرسے کے ذمہ دار کے طور پر جن اساتذہ سے جواب طلب کیا گیا، وہ تو بہت ہی ناراض ہو گئے، لیکن جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔

حضرت علیمی صاحب علیہ الرحمہ کمیٹی کے سب سے اہم عہدے پر تھے اور میں مدرسے کا ایک ادنیٰ طالب علم، اس لیے اس میٹنگ کے بعد حضرت سے میرا سامنا نہیں ہوا، ۲۰۰۸ء میں فراغت کے بعد ، میں علی گڑھ چلا گیا، اور پھر وہاں سے بھوپال۔۲۰۱۱ء میں بھوپال میں بی۔ایڈ کر رہا تھا کہ علیمیہ میں مدرسہ جدیدکاری استاذ کی خالی سیٹوں کو پُر کرنے کے لیے استاذ کی ضرورت تھی، صدرالمدرسین حضرت علامہ فروغ احمد اعظمی مصباحی تھے، ہمارے کرم فرما ساتھی ڈاکٹر محمد سلمان رضا علیمی  کی پرنسپل صاحب سے بات ہوئی، ڈاکٹر سلمان صاحب نے میرا نام پیش کیا، حضرت نے فرمایا کہ غلام سید سے کہہ دیں کہ وہ میرے پاس فون کریں،پیغام ملنے پر میں نے حضرت سے رابطہ کیا، حضرت نے تفصیل بتائی کہ صدراعلیٰ مولانا معین صاحب کی خواہش ہے کہ کوئی اہل آدمی آئے ، لہذا فلاں تاریخ کو مدرسے میں اس پوسٹ کے لیے انٹرویو ہے جو تحریری اور تقریری دونوں طرح کا ہے،آپ انٹر ویو میں شریک ہوں اور اپنی اہلیت ثابت کریں۔۔

بہرکیف ، میں امتحان اور انٹرویو میں شریک ہوا، اور چند دنوں بعد پتہ چلا کہ ۹۸؍فیصد نمبرات کے ساتھ منتخب بھی ہو گیا، مگر  تعلیم مکمل کرنے کی مجھے چھٹی دی گئی۔میں تعلیم مکمل کرنے میں لگ گیا۔

بی۔ایڈ کا امتحان قریب تھا، اور بس ایک مہینہ بعد مجھے جمدا شاہی بحیثیت استاذ پہنچنا تھاکہ سننے میں آیا کہ انتظامیہ میں شدید اختلاف ہو گیا ہے اور مولانا معین الحق صاحب کو عہدۂ صدارت سےبر طرف کر دیا گیا ، یہ بھی سننے میں آیاتھا کہ حضرت کے زمانے میں ہونے والی کارروائیوں پر بھی نظر ثانی کی جا رہی ہے۔

اس اختلاف کو ذکر کرنے کا نہ تو یہ محل ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ، کیوں کہ علیمیہ کی انتظامیہ کمیٹی میں صلح ہو چکی ہے، اور دونوں متحارب گروہ اس وقت مل کر مدرسہ چلا رہے ہیں، جب وہ لوگ ان اختلافات کو بھلاچکے ہیں تو میں کون ہوتا ہوں کہ انھیں ان تلخ تجربات کو یاد دلاؤں۔

صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے میں نے صدرالمدرسین صاحب کے پاس فون کیا، حضرت کافی پریشان تھے، کیوں کہ کمیٹی کے اختلاف میں پرنسپل ہی سب سے زیادہ پستا ہے، ہر گروہ اس سے اپنی موافقت کرانا چاہتا ہے، بہرحال حضرت سے حادثے  کی تصدیق ہو گئی ، لیکن حضرت نے یہ بھی کہا کہ آپ کی تقرری ہو چکی ہے، اور اس پر اختلاف کا کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔

بعض احباب کے کہنے پر حضرت علیمی صاحب علیہ الرحمہ کے پاس بھی فون کیا، حضرت سے فون پر بات کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، اس سے پہلے آپ سے کبھی بھی کسی بھی طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی، حضرت نے بھی فرمایا کہ آپ مدرسہ آئیے اور جی لگاکر کام کیجیے، اختلافات تو ہوتے رہتے ہیں، ان شاء اللہ دیر سویر حالات معمول پر آ جایئےگے ، یہ طوفان بھی گزر جائےگا۔۔

بی ۔ایڈ کا امتحان دے کر غالباً مارچ،اپریل 2012 میں حضرت صدرالمدسین صاحب قبلہ کی طرف سے ہری جھنڈی پاکر دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی میں کام کرنے پہنچ گیا ۔ جون 2012ءسے باضابطہ مدرسہ جدیدکاری استاذ کے عہدے سے منسلک ہوااور مئی 2016 تک مشیئت الٰہی نے جتنا دارالعلوم علیمیہ کی خدمت لینی چاہی، میں نے کیا۔

یہ دور دارالعلوم علیمیہ کی تاریخ میں نہایت ہی سیاہ دھبّہ کے طور پر یاد رکھا جا رہا ہے، اور اس وقت تک یاد رکھا جائے گا جب تک اس سے زیادہ بھیانک کوئی حادثہ رونما نہ ہو جائے،اور خدا کرے ایسا نہ ہو۔کچھ مصلحتوں کے پیش نظر میں ان واقعات کو ہرگز نہیں لکھوں گا، اگرچہ سچ ہیں، اور میں ان کا چشم دید گواہ ہوں، کیوں کہ جن سچائیوں سے فتنے اٹھیں ، وہ اسی لائق ہیں کہ انھیں دفن کر دیا جائے۔

اس اٹھا پٹک کے دور میں کبھی ایک گروہ قانونی طور مضبوط ہوتا، تو کبھی دوسرا، ایک مرتبہ حضرت مولانا معین الحق علیمیؔ علیہ الرحمہ کی کورٹ کے ذریعہ بطور صدرِ اعلیٰ واپسی ہوئی، جو اگرچہ دیر پا نہیں ہوئی، لیکن اسی دوران انھوں نے میرے ساتھ بڑی عنایتیں کیں، جو ابھی تک صیغۂ راز میں ہیں ، دو تین لوگوں کے علاوہ اسے کوئی بھی نہیں جانتا، مجھے نہیں معلوم کہ اس راز کا افشا کرنا صحیح ہے یا غلط، مگر میرا وجدان کہتا ہے کہ  اس رازِ سربرستہ کو کھولنے سے بہت سے ذمہ دارانِ مدرسہ کے لیے مشعلِ راہ  مل سکتا ہے، جو نئے اور ناتجربہ کار اساتذہ سے ‘‘کولہو کے بیل’’کی طرح کام تو لیتے ہیں مگر قدردانی کے نام انھیں صرف مایوسی ہی دے پاتے ہیں۔

دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی میں میری تقرری جیسا کہ میں نے ذکر کیا مدرسہ جدید کاری استاذ کے عہدے پر ہوئی  تھی، حکومت ہند کی اس اسکیم میں کام کرنے  والے ہی جانتے ہیں کہ اس میں کام کرنے سے بہتر یہی ہے کہ بے روزگار رہا جائے،اور یومیہ مزدوری کی جائے، یہ مان کر چلا جا رہا تھا کہ حکومت کی طرف سے ملنے والا ‘‘مان دییہ’’ 6000 ہے، حالانکہ معلوم نہیں کیسے مرحوم منیجر محمد رضا صاحب کے دستخط کے ساتھ میری ‘‘تقرری چٹھی’’میں مشاہرہ 12000 لکھا ہوا تھا، جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

ان عہدوں پر کام کرنے والوں کے لیے جمدا شاہی میں یہ طریقہ ہے کہ مشاہرہ کی آدھی رقم مدرسہ ہر مہینے دے دیتا ہے ، اور جس مہینے کی تنخواہ حکومت کی طرف سے آجاتی ہے ، اس مہینے میں مدرسہ اپنی دی ہوئی رقم واپس لے لیتا ہے۔

اگرچہ 12000 رقم مشاہرہ والا جوائننگ لیٹر ملا تھا مگر کبھی بھی 12000 تنخواہ  نہیں ملی ، بلکہ اس کے آدھے کا آدھا یعنی تین ہزار  تنخواہ مدرسہ کی طرف سے رکھی گئی، کچھ بزرگوں نے میری کارکردگی دیکھتے ہوئے چار ہزار کرادی، یہی حال رہا یہاں تک کہ حضرت علامہ معین الحق علیمی علیہ الرحمہ دوبارہ صدر اعلیٰ ہوئے اور انھوں نے مدرسہ کی طرف سے ملنے والے چار ہزار کے علاوہ اپنی جیب خاص سے تین ہزار دینا شروع کر دیا، یہ تاکید کرتے ہوئے کہ دل لگا کر کام کروں،مدرسہ چھوڑ کر کہیں نہ جاؤں، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ علیمیہ کو آپ جیسے محنتی لوگوں کی سخت ضرورت ہے۔۔

میری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے محسنین کی توقعات پر کھرا اتروں ، اس لیے کبھی بھی خانہ پُری کے لیے کوئی کام نہیں کیا، اور نہ ہی دکھاوے کےلیے، ورنہ تو ہر ادارے میں ایسا ہوتا ہے کہ جب ذمہ دار رہتے ہیں کہ تو گدھا بھی گھوڑا بننے کی کوشش کرتا ہے۔

 علامہ معین الحق علیہ الرحمہ کچھ دن صدر رہے پھر ہٹا دیے گئے، لیکن میرا کام ویسا ہی رہا جیسا ان کے زمانے میں تھا، حالانکہ تین ہزار اضافی رقم بھی ملنی بند ہو گئی،وہ ہٹا دیے گئے لیکن جب بھی ان سے میری بات ہوئی، انھوں نے میری حوصلہ افزائی ہی کی، اور یہ کہتے رہے کہ علیمیہ چھوڑ کر کہیں کا رخ نہ کروں، کبھی بھی انھوں نے مجھے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ مجھ سے ان کا بہت کام بن سکتا تھا، کیوں کہ  میں کمپیوٹر چلانے کی وجہ سے آفس میں اندر تک گھُسا ہوا تھا۔

 زمانہ گزرتا گیا، میرے مہربان استاذ حضرت علامہ ڈاکٹر انوار احمد بغدادی مد ظلہٗ کی خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ کام کروں، آپ اس وقت دارالعلوم علیمیہ نسواں کے پرنسپل تھے، اس وقت ایک جگہ کلرک کی خالی تھی، وہ چاہتے تھے کہ اس جگہ پر میرا تقرر ہو جائے ، حضرت نے بڑی کوشش کی ، پہلے مجھے راضی کیا، دو تین مرتبہ سمجھایا، پھر منتظمین کو راضی کرنے کی کوشش کی، ظاہراً کچھ لوگ راضی بھی تھے، مگر خدا جانے کیا ہوا؟

ایک رات سب طلبہ ہاسٹل سے اٹھ کر بھاگے، مدرسے میں شور مچا زلزلہ آیا ہے، میں نے بھی اپنے کمرے میں زلزلے کا جھٹکا محسوس کیا، لیکن یہ زلزلہ صرف مدرسے میں تھا، گاؤں میں نہیں، ماجرا سمجھ میں نہیں آرہا تھا، صبح کو خبر ملی کہ اس عہدے  پر میری تقریری نہیں ہو پائے گی، وجہ بتائی گئی کہ میں انٹرویو میں ناکامیاب پایا گیا ہوں۔

دل میں آیا کہ اسی وقت مدرسہ چھوڑ دوں لیکن پھر مولانا معین الحق اور پھر استاذ ومربی علامہ فروغ احمد اعظمی کا خیال آیا، مولانا معین صاحب کے پاس فون کیا، انھیں تمام حالات کی اطلاع پہلے ہی ہو چکی تھی، میں  نے کہا :‘‘حضرت، اب میں یہاں رہنے کے قابل نہیں رہا۔’’ حضرت بھی کچھ نہیں کہہ پائے، ان کی خاموشی کو میں نے رضا پر محمول کیا۔ یہی حال علامہ فروغ کا تھا۔

پھر میں نے سوچا کہ تعلیمی سال پورا کرکے جاؤں گا، تعلیمی سال مکمل کیا اور پھر مستعفی ہو گیا۔۔لیکن حضرت سے غائبانہ تعلقات ہمیشہ رہے،  اچانک ۲۳ مئی ۲۰۲۰ء کو خبر آئی کہ حضرت نہیں رہے، اب سے آگے نہیں لکھ پاؤں گا،آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنے مخلص، مہربان، مشفق، قدر دان اور حوصلہ بڑھانے والے بزرگ کو کھو دینے پر مجھ پر کیا بیتی ہوگی۔۔۔

Post a Comment

0 Comments