حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرت
انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا خالق و مالک
کون ہے؟
یہ سوالات جتنے اہم ہیں اس سے
کہیں زیادہ مشکل،ایں و آں سے لے کر سقراط و بقراط اور ارسطو جیسے دماغوں میں بھی یہ سوال ابھرتے رہے ہیں،اور سب اپنے ظرف یا
مطلب کے موافق اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں،مگر اسے ان دماغوں کی بدنصیبی
ہی کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی انسان اپنی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
کسی
نے انسان کو حیوان نا طق کہا تو کسی نے عالم اصغر،اور کسی نے تو اس کو بالکل بے
حقیقت کہہ دیا...مٹھی بھر ہڈی اور بس...ایک صاحب نے کہا ہے۔
اک مشت استخواں پر نہ اتنا غرور
کر
قبریں بھری پڑی ہیں عظام رمیم سے
ہو
سکتا ہے کہ یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست بھی ہوں مگرہمیں تو اس حقیقت پر
یقین ہے کہ جو رب شناسی کے سرمایہ گراں مایہ سے ہم کنار ہو جائے تو وہ خود شناسی
کا مرحلہ بھی طے ہی کر لیتا ہے ، رب شناسی کا راستہ خودرب تعالیٰ نے واضح انداز میں
بیان کر دیا ہے۔فرمان خدا وندی ہے:{وَالَّذِينَ
جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ
الْمُحْسِنِينَ}العنكبوت69[1]
اور
جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک
اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔[2]
تفسیر خزائن العرفان میں صدر
الافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت رقم فرماتے ہیں
کہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ جنھوںنے ہماری راہ
میں کوشش کی ہم انہیں ثواب کی راہ دیں گے ۔ حضرت جنید نے فرمایا جو توبہ میں کوشش
کریں گے انہیں اخلاص کی راہ دیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جو طلبِ علم میں
کوشش کریں گے انہیں ہم عمل کی راہ دیں گے ۔ حضرت سعد بن عبداللہ نے فرمایا جو
اقامتِ سنّت میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنّت کی راہ دکھا دیں گے ۔[3]
انسانوں
کی بھیڑ بھاڑ والی اس دنیا میں ایسے لوگوں موجود رہے ہیں اگرچہ ان کی تعداد بہت کم
ہوتی ہے جن لوگوں نے قرآن پاک کے ذریعہ بتائے گیے طریقہ پر چل کرحق کی تلاش کر لی ہے ،ان لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ
دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے بہت دور رہتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کی حیثیت تنکا بھر
سے زیادہ نہیں ہوتی،دنیا کی آسائشیں ان کے قدموں میں دوڑ دوڑ کر آتی ہیں مگر کیا
مجال کہ اللہ والے اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی ڈال لیں ۔۔۔ان کا ظاہر باطن
یکساں ،ان کی خلوت و جلوت برابر،دل کے صاف
،زبان کے پکے، کردار کے دھنی،قلند صفت ،صائم النہار، شب زندہ دار، خشیت الٰہی،
للٰہیت اور آہ و گریہ زاری ان قدسی صفات کا شیوہ ہوتا ہے ،حیات ظاہر ی میں لوگوں
کے دل ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں اور بعد وفات بھی ایک جہاں اکتساب فیوض و
برکات کے لیے دوڑا چلا آتا ہے۔
رب
تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کو اس طرح نواز دیتا ہے کہ وہ افق عالم پر آفتاب و ماہتاب بن
کر چمکتے ہیں،اپنے اپنے میدان میں یکتا و یگانہ نظر آتے ہیں،انھیں میں سےکچھ تو
ایسے ہوتے ہیں جن پرفضل الٰہی کابارانِ بے
حساب اتنا ٹوٹ کر برستا ہے کہ ہر ہر زاویہ
سے طاق ہوجاتے ہیں،اہل نظرقدرت الٰہی کا اعتراف کرتے ہوئے چیخ اٹھتے ہیں :
لیس علی اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی
واحد
(اللہ کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ
پورے جہان کو فرد واحد میں جمع کر دے)
ماضی
قریب میں انھیں عارفین حق میں سے پیر طریقت ، خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی محمد
نظام الدین علیہ الرحمہ[وفات ۱۴/مارچ۲۰۱۳]کی ذات ستودہ صفات ہے،حضرت صوفی صاحب
علیہ الرحمہ بلا شبہہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے
کئی وجہوں سے دنیا کو متاثر کیا ، آپ کے اندر وہ تما م خوبیاں موجود تھی جو
ایک عارف باللہ کے اندر موجود ہوتی ہیں،علاوہ ازیں آپ علم و فضل کے میدان میں بھی
یکتاے روزگار تھے ،علوم نقلیہ وعقلیہ میں دستگاہ کامل رکھتے تھے ،بالخصوص حدیث
،تفسیر،فقہ اور فضائل و سیر میں آپ کی خاص دلچسپی تھی جیسا کہ آپ نے ایک انٹرویو
میں اس کا اظہار خود کیا ہے،فرماتے ہیں کہ :
‘‘یوں
تو درس نظامیہ کے جملہ فنون پڑھنے اورپڑھانے کا شوق شروع ہی سے تھا، لیکن
تفسیر،حدیث ،فقہ اور فضائل و سیر سے میری دلچسپی زیادہ تھی’’[4]
علم
حدیث و تفسیر میں آپ کی وسعت نظر کا اندازہ کرنے کے لیے آپ کے لیےخطبات کا مجموعہ
بنام‘‘خطبات خطیب البراہین ’’ ہی کا مطالعہ کافی ہے ،اس کے علاوہ آپ کی حدیث دانی
پر محب گرامی حضرت مولانا کمال احمد علیمی استاذ دارالعلوم علیمیہ نے ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے ۔یہاں آپ کی فقہی بصیرت پر کچھ کہنے کی
جسارت کی جا رہی ہےاس اعتراف کے ساتھ کہ
جو کچھ بھی بیان ہوگا،حضرت کی عبقری شخصیت
اس سےسوا ہے،کیوں کہ جس کے علم و فضل کے اعتراف میں حضرت بحر العلوم علیہ الرحمہ
جیسی قدآور علمی شخصیت ‘‘چلتی پھرتی لائبریری’’ کہتی ہوئی نظر آئے ،مجھ جیسا مبتدی
ان کے علمی مقام کو کیوں کر متعین کر سکتا ہے۔
اختلاف فقہا پر نظر اور ان کے ما بین تطبیق:
فقہی
گیرائی کا اندازہ کسی مسئلہ میں فقہا کے مابین پایا جانے والے اختلافات اورپھر ان
سب کے درمیان تطبیق پر آگہی سے لگایا جا سکتا ہے ،حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ
کی تصنیفات اور افادات دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی نظر ان دونوں باتوں پر
بڑی ہی وسیع تھی چنانچہ آپ نے ایک جگہ حاشیہ در مختار کے حوالہ سے ‘روزہ’ کی تعریف
میں فقہا کے اختلاف کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
‘‘روزہ
مطلقاًامساک یعنی باز رہنے کو کہتے ہیں اور عرف شرع میں اس کی مختلف تعریفیں کی گئی
ہیں مثلاً ائمہ حنفیہ فرماتے ہیں کہ امساک مخصوص یعنی مفطرات ثلٰثہ،کھانے ،پینے
اور جماع سے صفت مخصوصہ کے ساتھ باز رہنے کا نام روزہ ہے ،ائمہ شافعیہ فرماتے ہیں
کہ علی وجہ المخصوص مفطرات سے باز رہنے کا نام روزہ۔مالکیہ فرماتے ہیں کہ نیت کے
ساتھ پیٹ اور فرج کی شہوتوں سے پورے دن باز رہنے کا نام روزہ ہے اور حنابلہ کا
کہنا ہے کہ اشیاء مخصوصہ سے باز رہنے کا روزہ ہے۔’’
اس
اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نے اس کے درمیان ایسی جامع
تطبیق دی کہ آپ کی فقہی بصیرت پر طبیعت مچل جاتی ہے،رقم فرماتے ہیں:
‘‘ان
سب کا مفاد یہ ہے کہ مسلمان کا بہ نیت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو
قصداً کھانے ،پینے اور جماع سے باز رہنے
کا نام روزہ ہے اور عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے’’[5]
رمضان
کے روزوں کے فرض ہونے سے پہلےعاشورا کا روزہ فرض تھا یا مستحب اس میں بھی فقہاے
کرام کا اختلاف ہے،اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت فرماتے ہیں:
‘‘رمضان
کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ فرض تھا یا مستحب ۔اس کے بارے میں فقہاے
کرام کے درمیان اختلاف ہے۔
شارح مسلم علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں:
واختلف العلماء ھل کا صوم عاشوراء واجباً قبل ایجاب رمضان ام کا ن الامر بہ
ندبا ،وجھان لاصحاب الشافعی،اظھرھما لم یکن واجباً و الثانی کان واجباً و بہ قال
ابو حنیفة رحمة اللہ تعالیٰ علیہ’’[6]
اور
علما نے اختلاف کیا، کیا عاشورا کا روزہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے واجب تھا
یا مستحب؟ اس میں اصحابِ شافعی کے دو قول ہیں اور ان دونوں میں مشہور قول فرض یہ
ہونے کا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ واجب تھا اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمۃ
اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے (یعنی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ
واجب تھا)
اس کے بعد فیصلہ فرماتے ہوئے تحریر فرماتے
ہیں:
لیکن
رمضان شریف کے روزے فرض ہونے بعد کسی کے نزدیک بھی عاشورا کا روزہ فرض نہیں رہا،اب
سب کے نزدیک سنت ہے،جیسا کہ شارح مسلم علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
اتفق العلماء علی ان صوم یوم عاشوراء الیوم سنة لیس بواجب ۔[7]
علما نے عاشورا کے دن کے روزے پر اتفاق کیا
کہ اب وہ سنت ہے واجب نہیں ہے۔
صدر
الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ نے نفل روزوں کی دو قسمیں بیان فرماتے
ہوئے عاشوراء کے دن کے روزے کو نفل مسنون سے شمار فرمایا ۔بہارِ شریعت میں ہے:
نفل
دو ہیں ،نفل مسنون اور نفل مستحب جیسے عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے
ساتھ نویں کا بھی[8]’’[9]
تائید فقہ حنفی:
حضرت
خطیب البراہین علیہ الرحمہ فقہ حنفی کی تائید بڑے ہی دل نشیں پیراے میں کرتے ہیں
چنانچہ تراویح کی رکعتوں کی تعیین میں فقہا ے کرام باہم مختلف ہیں ،علامہ
عینی فرماتے ہیں:
''قد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علیٰ اقوال کثیرۃ فقیل احد و اربعون و قیل ثمان و ثلاثون و قیل ست و ثلاثون و قیل اربع و ثلاثین و قیل ثمان و عشرون و قیل اربع و عشرون و قیل عشرون و قیل ثلاث عشرۃ وقیل احد عشرۃ رکعة''[10]
علماے کرام نے تراویح کی رکعتوں کی مستحب تعداد کے بارے میں اختلاف کیا ہے،اس سلسلے میں بہت سارے اقوال وارد ہوئے ہیں،چنانچہ ایک قول کے مطابق نماز تراویح میں اکتالیس ایک قول کے مطابق اڑتیس ایک کے مطابق چھتیس ایک کے مطابق چونتیس ایک کے مطابق اٹھائیس ایک کے مطابق چوبیس ایک کے مطابق بیس ایک کے مطابق تیرہ اور ایک قول کے مطابق گیارہ رکعتیں ہیں۔
احناف کا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعت ہے،حضرت صوفی صاحب قبلہ اس ضمن میں مذہب حنفی کی تائید میں ‘بدائع صنائع ’کی عبارت پیش فرماتے ہیں،جس کا ترجمہ آپ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
''قد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علیٰ اقوال کثیرۃ فقیل احد و اربعون و قیل ثمان و ثلاثون و قیل ست و ثلاثون و قیل اربع و ثلاثین و قیل ثمان و عشرون و قیل اربع و عشرون و قیل عشرون و قیل ثلاث عشرۃ وقیل احد عشرۃ رکعة''[10]
علماے کرام نے تراویح کی رکعتوں کی مستحب تعداد کے بارے میں اختلاف کیا ہے،اس سلسلے میں بہت سارے اقوال وارد ہوئے ہیں،چنانچہ ایک قول کے مطابق نماز تراویح میں اکتالیس ایک قول کے مطابق اڑتیس ایک کے مطابق چھتیس ایک کے مطابق چونتیس ایک کے مطابق اٹھائیس ایک کے مطابق چوبیس ایک کے مطابق بیس ایک کے مطابق تیرہ اور ایک قول کے مطابق گیارہ رکعتیں ہیں۔
احناف کا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعت ہے،حضرت صوفی صاحب قبلہ اس ضمن میں مذہب حنفی کی تائید میں ‘بدائع صنائع ’کی عبارت پیش فرماتے ہیں،جس کا ترجمہ آپ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
‘‘تراویح
کی مقدار دس سلاموں ،پانچ ترویحوں کے ساتھ بیس رکعت ہے اور ہر دو سلام کے بعد
بیٹھنے کو ترویحہ کہتے ہیں،یہی عامۂ علما کا قول ہے، امام مالک کا ایک قول ہے کہ
چھتیس(۳۶)رکعت ہے اور ایک قول یہ کہ چھبیس (۲۶)رکعت ہے، البتہ صحیح عامۂ علما کا
قول ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رمضان کے
مہینہ میں صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو حضرت ابی بن کعب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اکٹھا کیا،چنانچہ وہ روزانہ صحابۂ کرام کو بیس رکعت
پڑھاتے تھے اور صحابۂ کرام میں سے کسی نے انکار نہ کیا۔[11]
اس کے بعد فرماتے ہیں:
‘‘علامہ
کاسانی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ بیس رکعت پر صحابۂ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔
عمدۃ القاری شرح بخاری جلد پنجم صفحہ ۳۵۵ پر
ہے:
‘‘قال ابن عبد البر و ھو قول جمھور العلماء و بہ قال الکوفیون و الشافعی و اکثر
الفقھاء و ھو الصحیح عن ابی بن کعب من غیر خلاف من الصحابة۔’’[12]
علامہ ابن البر نے فرمایا کہ (بیس رکعت) جمہور علما کا قول ہے علماے کوفہ
،امام شافعی اور اکثر فقہا یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے اور ابی بن کعب سے
منقول ہے اور اس میں صحابہ کرام کا اختلاف نہیں ہے۔
مرقات میں ہے:
‘‘اجمع الصحابةعلیٰ ان التراویح عشرون رکعة۔’’[13]
صحابۂ کرام کا اس پر اجماع ہے
کہ تراویح بیس رکعت ہے۔
شامی میں ہے:
‘‘ھی عشرون رکعةو ھو قول الجمہور و علیہ عمل الناس شرقاً و غرباً’’[14]
تراویح
بیس رکعت ہے ،یہی جمہور علما کا قول ہے اور شرق و غرب میں ساری دنیا کے مسلمانوں
کا اسی پر عمل ہے۔’’[15]
مذاہب اربعہ کے فقہی احکام پر اطلاع:
حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نہ صرف یہ کہ مسئلہ کے حل حنفی فقہ کی روشنی میں
پیش کرتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دعوی کی دلیل چاروں فقہی مذاہب سے فراہم
کرتے ہیں،چنانچہ داڑھی منڈانے کی حرمت سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
‘‘ائمہ اربعہ امام اعظم ابو
حنیفہ ،امام شافعی ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضوان اللہ تعالیٰ علیھم
اجمعین کا متفقہ قول ہے کہ داڑھی منڈایا حرام ہے ،کسی نے بھی داڑھی منڈانے کی ذرہ
برابر گنجائش نہیں رکھی ہے۔’’[16]
اس کے بعد ہر ایک مسلک فقہ کی
معتمد کتابوں سے اس دعوی کو ثابت کیا ہے،چنانچہ فقہ حنفی کے لیے در مختار اور کتاب
الاثارسے،فقہ حنبلی کے لیے الفقہ علی المذاہب الاربعۃ سے ،فقہ شافعی کے لیے شرح
الحباب سے،فقہ مالکیہ کے لیے الابداع فی مضار الابتداع سے عبارات نقل کی ہے۔[17]
معتمد فقہی کتابوں سے کثرت حوالہ:
اسی باب میں حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں،آپ کی
تصانیف میں حوالوں کی کثرت کو دیکھتے ہوئے استاذ گرامی حضرت علامہ فروغ احمد اعظمی
صاحب قبلہ رقم طراز ہیں:
‘‘[آپ
کی تصانیف میں]حوالوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ اگر حوالوں کے درمیان سے ان مختصر
دل پذیر شرح اور سادہ جامع تبصرہ نکال دیجئے
تو بس حوالے ہی حوالے ہیں، اصل عربی عبارات کے ساتھ ان کے اردو ترجمے بھی
ہیں۔اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کا یہ نظریہ ہے کہ قرآن
و حدیث اور بزرگوں کی باتوں میں جو تأثیر ہوتی ہے وہ ایک داعی و خطیب کی اپنی
باتوں میں نہیں ہوتی۔۔۔۔’’[18]
آپ
کی تصانیف میں جہاں جہاں فقہی مسائل کا ذکر ہوا ہے آپ نے اس کو معتمد کتب فقہ کے
حوالوں سے مزین کیا ہے۔اس سے آپ کی علم فقہ میں دقت نظر کے علاوہ استحضار علمی کا
پتہ چلتا ہے۔اس ضمن میں دو ایک مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
آپ
نے ‘داڑھی کی اہمیت ’کے زیر عنوان ایک مختصر مگر جامع رسالہ تصنیف فرمایا ،اصل
رسالہ کے کل صفحات ۲۳ ہیں،اس رسالہ میں مندرجہ ذیل فقہی حوالے موجود ہیں:
فتح
القدیر کا حوالہ ۷ مرتبہ،بحر الرائق کا۴/مرتبہ،الدر المختار شرح تنویر الابصار کا
۴ مرتبہ،حاشیہ مراقی الفلاح کا۱یک مرتبہ،کتاب الاثار کا ۲ مرتبہ،عنایۃ شرح الھدایۃ
کا ایک مرتبہ،غنیۃ ذوی الاحکام کا ایک مرتبہ،الفقہ علی المذاھب الاربعۃ کا ۳ مرتبہ،الابداع فی مضار الابتداع
کا ۱یک مرتبہ،شرح الحباب کا ایک مرتبہ ،فتاوی رضویہ کا ۳مرتبہ،لمعۃ الضحیٰ کا
۱۲مرتبہ،احکام شریعت کا ایک مرتبہ اور بہار شریعت کا ایک مرتبہ ۔
علاوہ ازیں آپ کی تصنیف لطیف‘‘ روزہ کے احکام
’’میں فقہی کتابوں کا حوالہ جات کچھ اس طرح مذکور ہیں:
قدوری
(۲بار)،در مختار (۲۷بار)،رد المحتار (۱۴ بار)،حاشیۃ رد المحتار (ایک بار)، ہدایۃ(۲بار)،
عالمگیری(۲۲بار)، فتاوی رضویہ (ایک بار)،طرق اثبات ہلال(ایک بار)،العروس المعطار
فی زمن دعوۃ الافطار (۳بار)، بہار شریعت(۳۸بار)، قانون شریعت(۱۰بار)۔۔
بالجملہ
!ان تمام شواہد کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صوفی علیہ الرحمہ نہ صرف یہ
کہ ایک عظیم مفسر ،محدث ،خطیب ،مدرس اور
مرشد برحق تھے بلکہ ایک ماہر فن فقیہ بھی تھے۔
خاک
پاےحضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ
غلام سید علی علیمی نظامی
استاذ دارالعلوم علیمیہ جمدا
شاہی ،بستی
[2] (کنز
الایمان)
[3] تفسیر خزائن العرفان
[4] [محدث بستوی نمبر،سہ ماہی نوری نکات
بستی ص۲۲]
[5] [برکاتِ روزہ ص۲۷]
[6] [شرح مسلم ص۳۰]
[9] (برکات روزہ ص۹۱)
[10] [عمدۃ القاری ملخصاً٩/٢٠١مطبع
مصطفی البابی الحلبی مصر]
[11] [بدائع صنائع ج/۱ص۲۸۸]
[12] عمدۃ القاری شرح بخاری جلد پنجم صفحہ ۳۵۵
[13] مرقات ج/۲ص۱۷۵
[14] شامی جلد دوم صفحہ ۴۹۵
[15] [برکات روزہ ص ۱۰۵]
[16] [داڑھی کی اہمیت ص۲۳]
[17] تفصیل کے لیےملاحظہ ہو حضرت کارسالہ‘‘داڑھی کی
اہمیت’’ص۲۵
[18] سہ ماہی نوری نکات ،محدث بستوی نمبر ص ۳۸
0 Comments