![]() |
photo credit to google image |
مطلب
یہ کہ صرف مذہب ہی نہیں زبان وتہذیب بھی بڑی خطرناک چیز ہوتی ہے، اس کی وجہ سےبھی
قوم بنتی اور بگڑتی ہے، ۲۵؍مارچ ۱۹۷۱ء کو رات کا کھانا کھاکر
پاکستان کے شہر ’’دھاکہ‘‘میں سونے والوں کی سرکاری زبان ’’اردو‘‘اور شہریت
’’پاکستان‘‘ہوتی ہے، لیکن جب صبح اٹھتے ہیں تو سرکاری زبان ’’بنگلہ‘‘اور
شہریت’’بنگلہ دیش‘‘ ہو جاتی ہے ۔
میں نے گاؤں کے سرکار ی
اسکول سے اپنی تعلیم کی ابتدا کی تھی، پڑھنے میں ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن اس اسکول میں
اردو مضمون نہیں تھا، اس لئے مجھے درجہ دو تک پڑھ کر مدرسہ میں داخلہ لینا پڑا
تھا، مجھے پورے طور پر یاد ہے ، میرے ایک برہمن استاذ تھے، ٹھیک ٹھاک طالب علم
ہونے وجہ سے مجھ سے بہت زیادہ مانوس تھے، جب میں ٹی سی لینے پہنچا ، تو انھوں نے
پہلے تو بہت سمجھایا ، اور کہنے لگے کہ اردو گاؤں کے مدرسے میں پارٹ ٹائم پڑھ
لو،یہ اسکول مت چھوڑو،لیکن بہر حال مجھے جانا تھا، جب وہ مایوس ہو گئے ، تو ان کے
چہرے سے مایوسی ظاہر بھی ہو گئی، یعنی ان کی آنکھیں بھر آ ئیں۔۔
میرے پڑوس میں ایک ’’پنڈت
جی‘‘ ہوا کرتے تھے، نام تھا ’’رام ولاس‘‘۔پنڈت جی اردو زبان و ادب کے اچھے استاذ
تھے اور سرکار ی اسکول میں نوکر ی کر چکے تھے، کسی سبب سے مستعفی ہوکر ججمان دیکھ
رہے تھے، مدرسے سے آنے کے بعد ان کے گھر کے پاس خالی زمین میں کبھی کبھی بکریاں
چرایا کرتا تھا، وہ رسیّ بناتے تھے اور وہاں موجود لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر
اخلاقیات کا درس دیا کرتے تھے، میں بھی وہا ں بیٹھ جایا کرتا تھا۔۔ایک دن انھوں نے
مجھ سے پوچھ لیا:
’’اردو پڑھتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا :’’جی! پنڈت
جی‘‘۔
’’اسماعیل میرٹھی کی کوئی
نظم سناؤ‘‘ان کا دوسرا سوال تھا۔
اس وقت غالباً درجہ تین
میں تھا، پنڈت جی کا سوال سن میں بغلیں جھانکنے لگا، کیوں کہ میں نے ان کی نظم
پڑھی ضرور تھی مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ شاعر اسماعیل میرٹھی ہی ہیں، جواب میں دیر
ہوتے دیکھ انھوں نے گنگنانا شروع کیا۔۔۔ع
’’رب کا شکر ادا کر بھائی‘‘
’’جس نے ہماری گائے
بنائی‘‘میں نے اچک لیا اور پوری نظم سنا ڈالی۔نظم سننے کے بعد انھوں نے پھر اردو
زبان کی شیرینی اور مٹھاس پر ایک جامع تقریر کی تھی ، جو مجھے یاد نہیں، ہاں انھوں
نے دورانِ تقریر داغ دہلوی کا ایک شعر پڑھا تھا، وہ اب تک یا د ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں
جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری
زباں کی ہے
میرے گاؤں میں ’’پنڈت
رام وِلاس‘‘ آخری اردو داں ہندو تھے، وہ بھی اس دنیا سے چل بسے، یہ وہ دور تھا ،
جب ہندو مسلم منافرت دیہاتوں تک آج جیسی تباہ کن شکل میں نہیں پہنچی تھی، حالانکہ
اڈوانی کی ’’رتھ یاترا‘‘ بھی ہو چکی تھی اور پھر بابری مسجد کی شہادت بھی ،
ایودھیا سے قریب ہونے کی وجہ سننے میں آیا تھا کہ میرے گاؤں کے کچھ ہندو ’’کار
سیوا‘‘کے لئے گئے بھی تھے، لیکن انھوں نے مسلمانوں کے سامنے کبھی بھی اس کا برملا
اقرار نہیں کیا۔
نفرت کی سیاست کی ابتدا
ہو چکی تھی، دھیرے دھیرے اس نے پورے ملک کو اپنے چنگل میں لے لیا،اب تو اس قسم کی
خبریں آنے لگی ہیں کہ ایک اسکول میں ہندؤوں اور مسلمانوں کا مذہب کی بنیاد پر
سیکشن بنایا گیا، ایک اسکول میں چھوٹی ذات اور بڑی ذات کے بنیاد پر سیکشن بنایا
گیا!!اب کیا کہا جائے ، بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت بدل چکا ہے، دستور ہند دم
توڑ رہا ہے۔
میں مسلمان ہوں، لیکن
میرا برہمن استاذ میرے اسکول چھوڑنے کی وجہ جذباتی ہو گیا تھا، پنڈت جی اردو پڑھنا
لکھنا سکھاتے تھے، لیکن آج کی نفرت بھری فضا میں یہ مثالیں ملنا مشکل ہیں، نازیہ
ارم نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے ’’Mothering
a Muslim‘‘، اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے
بچوں کو اسکول میں کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسا تذہ ، ہم سبق
اور دوسرے لوگ کس طرح سے متعصبانہ رویہ روا رکھتے ہیں، بچوں کو کھلے منہ پاکستانی،
آتنک وادی، طالبانی اور دیگرفرقہ وارانہ پھبتیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔
میرے پاس اس با ت کا کوئی
ثبوت نہیں ہے کہ میری پڑھائی کے زمانے میں مسلم اور دلت طلبہ کے ساتھ ،غیر مسلم
اکثریت والے اسکولوں بہت اچھا سلوک ہوتا رہا ہوگا، اسی لئے اس بات کا دعوی بھی
نہیں کر سکتا ، لیکن یہ کہنے میں ذرہ برابر تردّد نہیں کہ آج جیسا زہریلا ماحول
نہیں تھا، حالانکہ وہ آزادی ہند کی پانچویں دہائی تھی۔
آزادی
ہند جس میں مذہب کی بنیاد پرپاکستان کا وجود ہوا، پھربھیانک قسم کے فرقہ وارانہ
فسادات ہو ئے نتیجۃً اجتماعی ہجرت(Mass
Migration)ہوا، ایک کروڑسے زیادہ لو
گ بھارت چھوڑ کر پاکستان اور پاکستان چھوڑ کر بھارت آئے،تقریباً بیس لاکھ لوگ
مارے گئے، صرف کراچی ہی میں تقریباً ۱۱۰۰؍ہندو مارے گئے تھے، جب
کہ تنہا دہلی میں تقریباً ۲۵۰۰۰؍مسلمانوں کو فسادات نے
نگل لیا تھا،۱۹۴۱ء کی مردم شماری میں دہلی
میں مسلمانوں کی آبادی ۳۳؍فیصد سے زیادہ تھی، اور ۱۹۵۱ء کی مردم شماری
میں ۵؍فیصد رہ گئی ،اسی طرح کی
تباہ کاریوں سے تاریخ کا دامن بھرا ہوا ہے۔۔
بھارت کے ابتدائی لیڈروں
نے ایک بڑی بربادی اور بھیانک خسارے کے بعد پھر سے بھارت کو سنوارنے کی کوشش کی ،
ایک مثالی دستور بنایا جس نے سب کو جینے کا حق دیا، جس نے یہ بتایا کہ رنگ، نسل ،
مذہب، جنس ، ذات پات ، علاقہ کسی بھی وجہ سے تفریق نہیں ہوگی، اور تو چھوڑئے دستور
ہند نے تو سیکولرزم کی تعریف ہی بدل ڈالی، اس نظریہ میں نئی قسم کا اضافہ کر دیا،
ہندوستانی سیکولرزم۔۔۔کیوں کہ آج بھی اکثر سیکولرزم کا ترجمہ اردو یا عربی میں
’’لادینیت‘‘سے کیا جاتا ہے، مگر بھارتی سیکولرزم کا مطلب ’’لادینیت ‘‘بہر طور نہیں
ہو سکتا، کیوں کہ ہندوستانی سیکولرزم کا مطلب تمام مذاہب کے پھلنے پھولنے، پنپنے
اور بڑھنے کا اذنِ عام ہے، مگر حکومت کا کوئی خاص مذہب نہیں ہوگا۔
یقینی طور پر یہ کہا جا
سکتا ہے کہ سیکولرزم کا نظریہ حکومت کے صلح کل پر مبنی ہے، لیکن اس کی آڑ میں کچھ
لوگوں نے عوام کو مذہب بیزاری کے لئے مجبور کیا ، ہمارے سامنے جمہوریہ ترکی کے
لیڈر مصطفیٰ کمال پاشا کی مثال موجود ہے، انھوں نے سیکولرزم کے آڑ میں مذہبی شعار
اور مذہبی لوگوں کے ساتھ کیا کیا ظلم روا نہ رکھا،عظیم عثمانی سلطنت کی نشانیوں کو
مٹایا، خانقاہوں اور مدرسوں کو برباد کیا،مذہبی تعلیم پر پابندی لگائی، یہاں تک
ترکی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن سے بدل دیا، تاکہ نسل نو بھول جائے کہ کبھی
ترکی نے شریعت کے قانون ساتھ دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کی تھی۔
یہ بھی ایک سیکولرزم تھا
جس کو کمال پاشا نے سمجھا لیکن بھارت کا نظریہ اس سے الگ بنا ، اور دستور ہند نے
تمام مذاہب کو آزادی دی ۔۔بھارت کی عوام نے دھیرے دھیرے خود کو بقائے باہم اور
رواداری اور تحمل کے نظریے میں پھر سے ڈھالنا شروع کیا، اور شاید ڈھال
لیتے۔۔۔لیکن۔۔۔
0 Comments