Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

جون پور پر خود مختار شیعہ حکومت


مغلوں کے بعد [۱۱۳۰ھ تا ۱۲۷۳ھ]ایک سو تینتالیس سال جون پورپر اودھ کے شیعہ نوابوں کی خود مختار حکومت رہی، جس میں گیارہ حکمراں گزرے ، جون پور اودھ کا ایک حصہ تھا، اودھ کے ان کوتاہ بیں، تنگ نظر اور سنیت دشمن شیعہ نوابوں کی وجہ سے جون پور کا شاداب سنی چمن ویران ہوتا چلا گیا، با رونق علمی و روحانی مراکز درہم برہم ہوتے چلے گئے، تقریباً ڈیڑھ سو سالہ نوابی شیعہ حکومت نے سنی علما و مشائخ سے جائدادیں چھین کر انھیں معاشی طور سے بد حال اور بے سہارا کر دیا، اس حکومت کا پہلا حکمراں نواب برہان الملک سعادت علی خان [م۱۱۵۱ھ]ہے، جس نے ۱۱۳۶ھ میں اودھ کی صوبہ داری پائی، جب کہ آخری حکمراں نواب واجد علی شاہ [ معزول ۱۲۷۳ھ ] تھا۔

یہ لوگ مذہباً شیعہ تھے اور ان کے اثر سے اودھ بہ شمول جون پور بلکہ پورے دیار پورب میں شیعہ مذہب کو بہت بڑھاوا ملا۔

سنیوں کی تباہی اور شیعوں کی زیادتی

شیعہ دور میں جون پور کے سنی اہل علم و فضل ،طلبہ اور مدرسوں کی تباہی کے عینی شاہد شیعی عالم مولوی خیر الدین محمد الٰہ آبادی نے اس تباہی و بربادی کا نقشہ اِن لفظوں میں کھینچاہے، لکھتے ہیں:

’’محمد شاہ کے عہد سلطنت میں نواب برہان الملک سعادت علی خاں نیشاپوری صوبہ اودھ اور سرکار ات بنارس و جون پور کا حاکم ہوا، نواب مذکور صوبۂ اودھ کا انتظام کرنے کے بعد ۱۱۴۷ھ میں جون پور آیا، چوں کہ اس شہر کے مشائخ ، امرا و حُکّام کی حاشیہ نشینی کے عادی نہیں تھے، اس لیے ان میں سے کوئی اس کے در دولت پر حاضر نہیںہوا۔۔۔۔[اس واقعے کی وجہ سے اور مخدوم الملک شیخ غلام غوث یا ان کی خانقاہ کے کسی فرد کے ذریعے استقبال نہ کیے جانے کے سبب] نواب سعادت علی خاں نے غیض و غضب میں حکم دیا کہ یہاں جتنے قدیم و جدید خانوادے ہیں ، ان سب کی جاگیریں ضبط کر لی جائیں، چنانچہ اس کے بعد مشائخ اور مدرسین کی جاگیریں، مراعات اور طلبہ و فقرا کے سب وظیفے اور روزینے یک قلم موقوف کر دیے گئے اور معاشی تنگی نے شہر کے باشندوں کو تحصیل علم سے روک دیا، دور دراز سے آئے ہوئے طالب علم در بدر دست نگر ہو کر پھرنے لگے، مشائخ اور مدرسین طلب معاش میں خانقاہوں اور مدرسوں سے باہر نکل گئے، مدرسے ویران ہو گئے اور خانقاہیں بوم و شغال کا خرابہ بن گئیں۔[1]

نواب سعادت علی خاں کے مرنے کے بعد اس کا داماد ابو المنصور خاں صفدر جنگ حاکم ہوا، اس نے بھی جون پور کے غریبوں کے ساتھ وہی شیوہ بیداد جاری رکھا، بلکہ بقول شخصے’’ہر کہ آمد براں مزید نمود‘‘والی بات ہوئی۔[2]

یہی وہ شہر تھا جس میں ابراہیم شاہ شرقی کے عہد میں سیکڑوں مدرسے اور مسجدیں تھیں۔

مولانا غلام علی آزاد بلگرامی [ولادت ۱۱۱۶ھ وفات ۱۲۰۰ھ] نے مرحوم جون پور کا نوحہ و ماتم یوں کیا ہے:

’’وظائف خانوادہائے قدیم وجدید یک قلم ضبط شد و کار شرفا ونجبا بہ پریشانی کشید و اضطرار معاش مردم آنجا را از کسب علم باز داشتہ در پیشۂ سپہ گری انداخت و رواج تدریس و تحصیل بہ آں درجہ نہ ماند و مدارسے کہ از عہد قدیم معدن علم و فضل بود یک قلم خراب افتاد و انجمن ہائے ارباب کمال بیشتر برہم خورد ۔ اِنّا للہ و اِنا الیہ راجعون۔ ‘‘[3]

ترجمہ: قدیم و جدید خانوادوں کے وظائف۔۔۔۔۔بہ یک قلم ضبط ہو گئے، شرفا و نجبا پریشان ہو گئے، معاش کی مجبوری نے لوگوں کو طلبِ علم سے دور کرکے سپہ گری کے پیشے میں ڈال دیا، پڑھنے پڑھانے کا رواج پہلے جیسا نہ رہا۔ جو مدارس عہد قدیم سے علم و فضل کا مرکز تھے یکا یک تباہ وبرباد ہو گئے، اربابِ کمال کی انجمنیں درہم برہم ہو گئیں۔ اِنا للہ و انا الیہ راجعون۔

نوابان اددھ صرف شیعہ ہی نہیں تھے، بلکہ اس مذہب کے سرگرم داعی و مبلغ بھی تھے، صرف مذہبی عصبیت اور تنگ نظری کی وجہ سے سنی علما و فضلا اور مشائخ کی جاگیر یں ضبط کی جاتیں اور طلبہ کے وظیفے بند کیے جاتے تھے، کیوں کہ جو خانوادے شیعہ ہو جاتے ، ان کی جاگیریں بحال رہتی تھیں، عزاداری کے لیے بڑی بڑی جاگیریں اور معافیاں دی جاتی تھیں۔۔۔نواب آصف الدولہ اگرچہ لہو و لعب کا شکار رہتا تھا، مگر فرقہ پرست مذہبی بھی تھا، ایسے ہی اس کا نائب حسن رضا خاں بھی مذہبی آدمی تھا، ان دونوں کی کوشش سے ہزاروں سنی خاندان شیعہ بن گئے اور ان کو جاگیریں ملیں، جب کہ سنیوں کی وہ جاگیریں جو شاہان مغلیہ کے دور سے چلی آ رہی تھیں، ضبط کر لی گئیں۔

چنانچہ میر علی عاشقاں سراے میری کے خاندان والے اسی دور میں شیعہ ہو گئے۔۔۔راجہ سید حامد شاہ مانک پوری کا خاندان سلاطین شرقیہ کے زمانے سے جاگیر دار تھا، مگر شیعہ نوابی دور آتے ہی زوال آیا ، اِس خاندان میں راجہ سید احمد ثانی بخوف ضبطی معافی تبدیلی مذہب کرکے شیعہ ہو گئے۔۔

حافظ امان اللہ بنارسی کی جاگیریں اور مراعات نواب برہان الملک سعادت علی خاں نے ضبط کر لیں ،آخری عمر میں مجبور اً انھیں دلی جانا پڑا، ان کی اولاد بھی بعد میں شیعہ ہوگئی۔۔

شاہ ابو الغوث گرم دیوان بھیروی لہراوی اعظم گڑھ چھوڑ کر غازی پور چلے گئے۔۔

اس طرح بہت سے سنی خاندان شیعہ بنے یا بنا لیے گئے، جو اپنے مسلک پر ڈٹے رہے ، پریشان ہوئے۔

دارالسلطنت لکھنؤ میں استاذ جہاں، نحریر زماں ، بانی درس نظامی ملا نظام الدین سہالوی [متوفی ۱۱۶۱ھ]کی قائم کردہ مرکزی سنی درس گاہ مدرسہ نظامیہ فرنگی محل، جس کا علمی فیضان پورے ملک میں جاری تھا، شیعہ نوابی عہد میں اس کی علمی دینی مرکزیت بھی زوال وانتشار سے دوچار ہو گئی، اور ملا صاحب کے صاحب زادے ملک العلما بحر العلوم مولانا عبدالعلی فرنگی محلی[ متوفی ۱۲۲۵ھ]کو تعزیہ داری کے ایک جھگڑے میں جان کے خوف سے لکھنؤ چھوڑ کر شاہ جہان پور، رام پور ، بردوان (بہار) کی خاک چھانتے ہوئے ارکاٹ اور مدراس میں سنی نواب والا جاہ محمد علی خاں کے یہاں جانا پڑا اور آپ نے وہیں عزت و احترام کے ساتھ درس و افادہ میں بقیہ زندگی گزار دی۔[ 4]

۱۲۷۳ھ میں انگریزوں نے اودھ کے آخری تعیش پسند شیعہ نواب واجد علی شاہ کو گرفتار کرکے مٹیا برج کلکتہ بھیج دیا، اور ۷؍فروری ۱۸۵۶ء؍۱۲۷۳ھ میں کرنل اوٹرم نے پورے اودھ پر قبضہ کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا۔[5]

اور اس طرح اودھ سے شیعہ نوابی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، بہ شمول جون پور اودھ پر انگریز قابض ہو گئے۔

حیات شبلی کے حاشیے میں سید سلیمان ندوی نے نواب واجدعلی شاہ کا عہد حکومت ۱۲۷۶ھ؍۱۸۵۹ء ذکر کیا ہے ۔جیسا کہ درج ذیل نقشے سے ظاہر ہے، جب کہ قاضی اطہر مبارک پوری نے دیارپورب میں علم اورعلما میںواجد علی شاہ کی گرفتاری ، مٹیا برج کلکتہ بھیجے جانے اور کرنل اوٹرم کے ذریعہ پورے اودھ پر قبضہ کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کی تاریخ ۷؍فروری ۱۸۵۶ء؍۱۲۷۳ ھ لکھی ہے۔

اودھ کے شیعہ نواب اور مدتِ حکومت

(۱) برہان الملک سعادت علی خاں [۱۱۳۶ھ مطابق ۱۷۲۳ءتا۱۱۵۲ھ مطابق ۱۷۳۹ء]

(۲) ابو المنصور خاں صفدر جنگ [۱۱۵۲ھ تا ۱۱۶۷ھ]

(۳) نواب شجاع الدولہ         [۱۱۶۷ھ تا ۱۱۸۸ھ]

(۴) آصف الدولہ یحییٰ خاں [۱۱۸۸ھ تا ۱۲۱۲ھ]

(۵) نواب سعادت علی خاں [۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۰ءتا ۱۲۲۹ھ مطابق ۱۸۱۳ء]

(۶) نواب غازی الدین حیدر [۱۲۲۹ھ مطابق ۱۸۱۳ءتا۱۲۴۳ھ مطابق ۱۸۲۷ء]

(۷) نصیر الدین حیدر         [۱۲۴۳ھ مطابق ۱۸۲۷ءتا۱۲۵۳ھ مطابق ۱۸۳۷ء]

(۸) محمد علی شاہ [۱۲۵۳ھ مطابق۱۸۳۷ء تا ۱۲۵۸ھ مطابق ۱۸۴۲ء]

(۹) امجد علی شاہ     [۱۲۵۸ھ مطابق۱۸۴۲ء تا۱۲۶۳ھ مطابق ۱۸۴۶ء]

(۱۰) واجد علی شاہ [۱۲۶۳ھ مطابق ۱۸۴۶ء تا۱۲۷۶ھ مطابق ۱۸۵۹ء [

[6]


حوالہ جات

[1]  دیارِ پورب میں علم و علما ،ص: ۱۰۸ ،بحوالہ تذکرۃ العلما از مولوی خیر الدین شیعی تالیف ۱۲۱۴ھ

[2] ایضاً ،ص :۱۰۹

[3]  مآثر الکرام، ص: ۲۲۱

[4]  دیار پورب ۔۔۔۔ملخص، ص: ۱۱۷

[5] دیار پورب میں علم اور علما، ص: ۱۱۴

[6] حیات شبلی، حاشیہ، ص: ۳۹

اقتباس از ’’تاریخ جون پور اور مدرسہ حنفیہ‘‘ مولفہ (مولانا) فروغ احمد اعظمی مصباحی، شیخ الحدیث دارالعلوم مدینۃ العربیہ، دوست پور، سابق صدرالمدرسین دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی یوپی



کتاب حاصل کرنے کے لیے کمینٹ باکس میں پتہ ارسال کریں اور رابطہ کریں 7408894601



Post a Comment

0 Comments