Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

حسد کیا ہے؟

کوئی شخص یہ ارادہ کرے کہ اس کے مسلمان بھائی سے کوئی ایسی نعمت چھن جائے جس میں اس مسلمان کے لیے بھلائی اور بہتری ہو، تو اس ارادے کو حسد کہتے ہیں جو حرام ہے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک انسانی جذبہ اور ہے جس میں یہ ارادہ ہوتا ہے کہ وہ نعمت اس مسلمان سے چھنے نہیں بلکہ اس جیسی نعمت اسے بھی مل جائے تو اس کو حسد نہیں کہتے بلکہ ’’رشک‘‘کہتے ہیں جو جائز و مستحسن ہے۔

لیکن اگر کسی ایسی چیز کے چھن کا جانے کا ارادہ کیا جائے جس میں اس مسلمان بھائی کے بہتری نہ ہو بلکہ اس چیز کی وجہ سے اس  کا گھاٹا ہورہا ہو، تو اس کو ’’غیرت‘‘کہتے ہیں اور یہ بھی جائز و مستحسن بلکہ قابل تعریف جذبہ ہے۔

اسی طرح سے اگر یہ معلوم ہو کہ  وہ چیز اُس مسلمان کے لیے فائدے مند ہے ، اس میں اس کے لیے بہتری ہے، اور یہ جذبہ رکھا جائے کہ وہ چیز اس کے ساتھ برقرار رہے تو اس کو ’’خیرخواہی اور نصیحت‘‘کہتے ہیں، جو کارِ ثواب ہے۔

حسد کے نقصانات

بہر حال ’’حسد‘‘بہت بری بلا ہے ، اور اس کے بڑے بھیانک نقصانات ہیں ، امام غزالی نے اپنی کتاب ’’منہاج العابدین ‘‘میں لکھا ہے کہ حسد سے پانچ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں:

1.       اللہ کی فرمانبرداری میں خرابی: رسول اللہ نے فرمایا:’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔‘‘

2.     برائی اور شرارت : ’’حسد‘‘کرنے سے انسان کے اندر شرارت پیدا ہوجاتی، دیکھو خود اللہ ﷻ نے اپنے کلام پاک میں ہمیں حاسد کی برائی اوراس کی شرارت سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، فرمایا ہے ’’ومن شرّ حاسدٍ اذا حسد‘‘ (اور حاسد کے شر سے پناہ میں رکھ جب وہ حسد کرنے پر اتر آئے)، قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں حسد کی برائی اور شر کو شیطان اور جادو کی برائی  کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، تو غور کریں حسد کتنا بڑا فتنہ ہے اور اس کی برائی کتنی بڑی ہے!

3.     بے چینی: حسد کی تیسری خرابی یہ ہے اس کی وجہ سے بے چینی اور بلا وجہ غم اور فکر سوار ہو جاتاہے، حضرت ابن سماک فرماتے ہیں :’’میں نے حاسد کے سوا کسی ظالم کو نہیں دیکھا جوظالم کم مظلوم زیادہ لگتا ہے، ہر وقت افسردہ خاطر رہتا ہے، پریشان رہتا ہے، ہر وقت غم میں مبتلا رہتا ہے۔‘‘

4.     دل کا اندھا ہو جانا: حسد کی وجہ سے دل اندھا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ ﷻکے کسی حکم کو سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

5.    ذلّت اور محرومی: پانچویں خرابی یہ پیدا ہو تی ہے کہ انسان ذلّت اور محرومی کی لعنت میں گرفتا ہو جاتا ہے، اپنی کسی مراد میں کامیاب نہیں ہوتا ، اور نہ اپنے کسی دشمن پر غالب آسکتا ہے ، حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’ کینہ پردر دین دار نہیں ہوتا، لوگوں کے عیب نکالنے والا عبادت گزار نہیں ہو سکتا، چغل خور کو امن نصیب نہیں ہو سکتا، اور حاسد شخص اللہ کی مدد سے محروم رہتا ہے۔‘‘

حسد کی بیماری کا علاج کیسے ہو؟

حسد کا علاج جذبہ ٔ خیر خواہی ہے ، اسی کو برقرار رکھ کر ہی حسد کی بیماری سے بچا جا سکتا ہے، وہ تمام باتیں یاد رکھنی چاہیے جو اللہ کی طر ف مومن بندے کے ساتھ دوستی اور موالات پر وارد ہوئی ہیں، ایک مومن کے حقوق کی پاسداری میں حتی الوسع کوشاں رہ کر ہی اس بد ترین مرض سے نجات پایا جا سکتا ہے۔

(ماخوذ از منہاج العابدین از امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ)


Post a Comment

0 Comments