Time & Date

Ticker

6/recent/ticker-posts

رمضان المبارک اور تلاوت قرآن کریم



        اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک کو خصوصی عظمت و کرامت حاصل ہے، اس مہینے میں نیکیوں کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، عبادات و طاعات پر اجر و ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے، اس مہینے میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے حد درجہ خوش ہوتا ہے، اور انھیں طرح طرح کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔
        اس ماہ مبارک کی عظمت و شرافت کے اسباب میں سے ایک خاص سبب یہ ہے کہ اسی ماہ کی ستائیسویں شب میں قرآن جیسی مقدس کتاب کا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نزول ہوا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’إنا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر‘‘ یعنی ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا۔
        رمضان اور قرآن کے درمیان بڑا مضبوط رشتہ ہے، دونوں کے درمیان کئی باتیں مشترک ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے، چنانچہ قرآن کے نزول کا مقصد واضح کرتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ’’ذالک الکتاب، لا ریب فیہ، ھدی للمتقین‘‘ یعنی اس کتاب میں کوئی شک و شبہہ نہیں، یہ پرہیزگاروںکے لیے سراپا ہدایت ہے، اسی طرح سے روزہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’لعلکم تتقون‘‘ یعنی روزہ اس لیے فرض کیا گیا تاکہ لوگ پرہیزگار ہوجائیں، گویا دونوں کا مقصد اصلی یہ ہے کہ لوگ پرہیزگار اور نیک بن جائیں۔
        دوسری بات یہ ہے کہ دونوں اہل ایمان کی شفاعت کریں گے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’الصیام و القرآن یشفعان للعبد‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الصوم، ص:۱۷۳) یعنی روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لیے بارگاہ خداوندی میں شفاعت و سفارش کریں گے، اور اللہ تعالیٰ دونوں کی شفاعت قبول بھی فرما لے گا، چنانچہ اسی حدیث میں آگے مذکور ہے: ’’فَیُشَفَّعَانِ‘‘ یعنی دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔
        تیسری اہم مناسبت دونوں میں یہ ہے کہ آدمی تلاوت قرآن کے وقت اللہ رب العزت کی صفت کلام کی نقل کرتا ہے، اور روزہ رکھتے وقت اللہ تعالیٰ کی نہ کھانے پینے والی صفت کی نقل کرتا ہے، گویا دونوں عمل میں اللہ رب العزت کی صفتوں کی نقل کرکے بندہ سعادت دارین حاصل کرتا ہے۔
        رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا لطف ہی الگ ہوتا ہے، پیٹ اور نفس کی خواہشات سے دور رہ کر جب بندہ اپنے رب سے قریب ہوجاتا ہے اس وقت وہ قرآن کی تلاوت کر کے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، اپنی زبان سے اپنے پروردگار کی باتیں ادا کرتا ہے، محبوب کی باتیں بڑی محبوب اور میٹھی ہوتی ہیں، اسی لیے اللہ والے جب یاد الٰہی میں گم ہونا چاہتے تو اس وقت وہ تلاوت قرآن کیا کرتے تھے۔
        قرآن کی تلاوت روحانی غذا بھی ہے، اللہ والوں کو اس سے روحانی خوراک ملتی ہے، مشہور واقعہ ہے کہ حضرت سید بدیع الدین شاہ مدار علیہ الرحمہ مکن پور سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کھاتے پیتے نہیں ہیں پھر بھی قوت و توانائی سے بھرپور رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جب مجھے بھوک لگتی ہےتو میں قرآن کی تلاوت کر لیتا ہوں، میری بھوک مٹ جاتی ہے۔ (مروی از خطیب مشرق علیہ الرحمہ)
        گویا اللہ والوں کو جب روزہ کی حالت میں بھوک کا احساس ہوتا ہے تب قرآن کی تلاوت کرکے وہ اپنی بھوک کو مٹا کر روحانی غذا حاصل کرتے ہیں، میرا خود تجربہ ہے کہ حالت روزہ میں جتنے غور سے تلاوت کریں گے وتنے ہی لطف ملتا ہے، اور بھوک پیاس کا تو احساس تک نہیں ہوتاہے۔
        رمضان میں تلاوت قرآن کی اسی اہمیت کے ناتے رسول اکرم علیہ السلام اور ہستیوں کے مقابلے میں رمضان میں کثرت سے تلاوت فرماتے، ہر سال جتنا قرآن نازل ہوتا رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ وتنے حصے کا دور فرماتے، وفات سے قبل والے رمضان میں آپ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر:۱۷۵۹)
        قرآن کریم کا یہ دور رمضان کی ہر شب میں ہوتا تھا، جب کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’کان جبرئیل یلقاہ کل لیلۃ فی رمضان یعرض علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم القرآن‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، ص:۱۸۳، کتاب فضائل القرآن) یعنی حضرت جبریل رمضان کی ہر رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتےاور آپ علیہ السلام حضرت جبریل کو قرآن سناتے۔
        رمضان المبارک سے تلاوت قرآن کا ایک خاص تعلق یہ بھی ہے کہ نماز تراویح میں قرآن کریم کا ختم ہوتا ہے، اس نماز کا آغاز خود نبیٔ کریم علیہ السلام کے عہد مبارک سے ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب کو نماز تراویح پڑھانے پر مامور فرمایا، حضرت ابی بن کعب نماز تراویح میں تلاوت قرآن فرماتے، نبیٔ کریم علیہ السلام اور صحابۂ کرام کی یہ سنت آج بھی زندہ ہے، حفاظ کرام نماز تراویح اور شبینہ میں ختم قرآن کا اہتمام کرتے ہیں، رمضان کی راتوں میں جب کوئی خوش آواز حافظ قرآن تلاوت کرتا ہے اس وقت فضا میں گونجتی لاہوتی صدا اور ربانی کلمات کے سننے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، بعض شہروں میں کئی کئی مسجدوں میں نماز تراویح میں تلاوت قرآن ہوتی ہے، اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف اللہ تعالیٰ کے کلمات کی مٹھاس بکھری ہوئی ہے، اور ہر چہار جانب سے بس اللہ ہی کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔
        بزرگوں نے رمضان المبارک میں ختم قرآن کا خصوصی اہتمام کیا ہے، چنانچہ امام زہری فرماتے ہیں کہ رمضان قراءت قرآن اور اطعام طعام کا مہینہ ہے، امام عبد الرزاق کے بقول حضرت سفیان ثوری رمضان میں ہر نفلی عبادت چھوڑ کر صرف تلاوت قرآن فرماتے، امام قتادہ تین راتوں میں ختم قرآن کرتے، امام اسور دوراتوں میں ختم فرماتے اور امام شافعی ایک رمضان میں ۶۰ختم فرماتےتھے (لطائف، ص ۳۵۹،۳۶۰)، امام نووی فرماتے ہیں کہ ایک رکعت میں ختم کرنے والے بے شمار ہیں، متقدمین میں سے حضرت عثمان بن عفان، حضرت تمیم داری، حضرت سعید بن جبیر ایک رکعت میں ختم قرآن فرماتے تھے۔ (التبیان، ص:۴۸)
        بہر حال ماہ رمضان میں ہمیں تلاوت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اگر ہم قرآن کا ترجمہ اور معنیٰ مطلب سمجھ سکتے ہوں تو اسی لحاظ سے تلاوت کرنی چاہیے، ورنہ کسی عالم سے قرآن کی تفسیر سننی چاہیے، تلاوت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ ہم اعتکاف میں بیٹھیں اور یکسوئی کے ساتھ تلاوت سے محظوظ ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

*کمال احمد علیمی نظامی*
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی

Post a Comment

0 Comments